منی لانڈرنگ کیس کی اسلام آباد منتقلی کی درخواست پر فیصلہ 15 مارچ تک محفوظ


کراچی: بینکنگ کورٹ نے میگا منی لانڈرنگ کیس کی اسلام آباد منتقلی سے متعلق نیب کی درخواست پر فیصلہ 15 مارچ تک محفوظ کرلیا۔ 

کراچی کی بینکنگ کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے رقم بیرون ملک منتقل کرنے کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اس موقع پر مقدمے میں نامزد ملزمان حسین لوائی، عبدالغنی مجید، نمر مجید، ذوالقرنین مجید اور دیگر کو بھی پیش کیا گیا۔

فریال تالپور بھی عدالت میں پیش ہوئیں تاہم آصف زرداری پیش نہیں ہوئے، ان کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے نیب کی جانب سے مقدمہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی مخالفت کی۔

نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ وفاقی عدالت ہے صوبائی عدالت نہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر ہی 16 ریفرنس بنائے جارہے ہیں، اس لیے کیس کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دیا جائے۔

وکیل آصف زرداری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسنگ کا نہیں اور نہ ہی عوام سے فراڈ کا ہے، نیب نے غلط دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ نے مقدمہ منتقل کرنے کا حکم دیا، اعلیٰ عدالت نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔

 وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو مزید تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے لیے 2 ماہ کا وقت دیا جو ختم ہوچکا ہے اور نیب کو جے آئی ٹی کی تحقیقات آگے بڑھانے کیلئے کہا گیا تھا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام ہدایات جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق دی گئی ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں ایف آئی اے کے مقدمے کا ذکر نہیں ہے۔

عدالت کو کیس اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دینے کا اختیار نہیں: وکیل آصف زرداری

آصف زرداری کے وکیل نے ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس عدالت کو کیس اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دینے کا اختیار نہیں۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو تحقیقات کر کے ریفرنس دائر کرنے کا بھی حکم دیا تھا اور سپریم کورٹ کے 2004 کے فیصلے کے مطابق ملزمان کو شو کاز دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

آصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ بینکنگ کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، نیب کی مقدمہ منتقلی کی درخواست ناقابل سماعت ہے، اسے مسترد کیا جائے۔

مقدمے میں نامزد ملزم حسین لوائی کے وکیل نے بھی مقدمہ اسلام آباد منتقلی کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل میں کہا کہ کیس دوسرے صوبے منتقلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے، کیس کا چالان فراڈ، دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت جمع کرا دیا گیا ہے۔

وکیل حسین لوائی نے کہا کہ سپریم کورٹ اسٹیل مل کرپشن میں ایف آئی آرز منتقل کرنے کا حکم دے چکی ہے، کیس منتقلی کی درخواست بد نیتی پر مبنی ہے، عدالت کو کیس منتقل کرنے کا اختیار نہیں ہے تو ایف آئی اے کیس واپس لے لے۔

فریقین وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے نیب کی درخواست پر فیصلہ 15 مارچ تک محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

منی لانڈرنگ/ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر

منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر جعلی اکاؤنٹس کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں جن اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے، جس کے بعد 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، تاہم انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی، انہوں نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی میگا منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا۔

گزشتہ برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جس پر عدالت نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔

دوسری جانب جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے، جن میں انور مجید، ان کے اہلخانہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نام شامل ہیں۔

تاہم بعدازاں سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

مزید خبریں :