پاکستان
Time 04 فروری ، 2019

وزیراعظم کی برہمی:حسین لوائی، اے جی مجید کی اڈیالہ سے کراچی جیل منتقلی کا حکم واپس

 محکمہ داخلہ سندھ نے درخواست کی تھی کہ حسین لوائی (بائیں) اور عبدالغنی مجید (دائیں) کے خلاف بینکنگ کورٹ کراچی میں کیس چل رہا ہے، لہذا ان کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے ملیر جیل کراچی منتقل کرنے کا حکم جاری کیا جائے—۔فائل فوٹو

لاہور: منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں قید سمٹ بینک کے صدر حسین لوائی اور اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو اڈیالہ سے کراچی کی ملیر جیل منتقل کرنے کے حکم پر وزیراعظم عمران خان برہم ہوگئے، جس پر محکمہ داخلہ پنجاب نے حکمنامہ جاری کرنے کے بعد واپس لے لیا۔ 

واضح رہے کہ محکمہ داخلہ سندھ نے درخواست کی تھی کہ حسین لوائی اور عبدالغنی مجید کے خلاف بینکنگ کورٹ کراچی میں کیس چل رہا ہے، لہذا ان کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے ملیر جیل کراچی منتقل کرنے کا حکم جاری کیا جائے اور کیس مکمل ہونے تک کراچی ہی میں رکھا جائے۔

اس کے جواب میں محکمہ داخلہ پنجاب نے 31 جنوری کو دونوں ملزمان کو ملیر جیل کراچی منتقل کرنے کا اجازت نامہ جاری کردیا۔

تاہم وزیراعظم عمران خان کی لاہور آمد پر جب یہ بات اُن کے علم میں آئی تو انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قانون کے مطابق عمل کیا جائے، جس پر محکمہ داخلہ پنجاب نے اپنا جاری کردہ حکم نامہ واپس لے لیا۔

منی لانڈرنگ/ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر

منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر جعلی اکاؤنٹس کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں جن اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے، جس کے بعد 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، تاہم انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی، انہوں نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ سربراہ انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید، نمر مجید کے علاوہ سمٹ بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی اسی کیس میں گرفتار ہیں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی میگا منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا۔

گذشتہ  برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا جس پر عدالت نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

دوسری جانب جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے، جن میں انور مجید، ان کے اہلخانہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نام شامل ہیں۔

تاہم بعدازاں سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

مزید خبریں :