لال کبوتر: ایکشن، سسپنس، کرائم اور ڈرامہ سے بھرپور فلم

— 

فلم 'لال کبوتر' دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم شروع ہونے سے پہلے کوئی بہت زیادہ امیدِیں نہیں تھیں مگر جیسے فلم شروع ہوئی اور آگے بڑھتی گئی اس فلم نے دیکھنے والوں کی توجہ جکڑ لی۔

ایسا محسوس ہوا کہ فلم کا ہدایتکارکوئی کہنہ مشق اور تجربہ کار ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ کمال خان کی بطور ہدایتکار پہلی فلم ہے اس سے پہلے وہ کوک اسٹوڈیو سے وابستہ رہے۔ اپنے ایک انٹریو میں کمال خان نے بتایاتھا کہ لال کبوتر بناتے ہوئے انڈسٹری کے بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ پہلے کم از کم دس سال تک کمرشل فلمیں بناؤں تاکہ اپنا نام پیدا کر سکوں اس کے بعد اس قسم کی فلم بنائی جائے۔

یہاں کمال خان کی ہمت اور مصمم ارادے کے ساتھ ساتھ فلم کے پرڈیوسر کو بھی داد بنتی ہے کہ جنہوں نے اس موضوع پر وہ بھی ایک نئے ہدایت کار پر بھروسہ کیا۔ لال کبوتر ایک کرائم ڈرامہ کہانی پر مبنی ہے جس میں تجسس سنجیدگی پیغام سب موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر جب کہانی میں مزاح نہ ہو تو عام طور پر دیکھنے والے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں مگر اس میں اختتام تک دلچسپی برقرار رہتی ہے۔

ہداتیکار کے لیے سب سے پہلا کام کہانی کا اتنخاب ہوتا ہے جوکہ بہترین ہے۔ فلم کی کاسٹ میں منشا پاشا نے مرکزی کردار میں بہترین اداکاری کی اور احمد علی اکبر نے زیادہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود منجھے ہوئے اداکاروں کی طرح کام کیا عام طور پرچھوٹی اسکرین کے چہرے بڑی اسکرین پر مار کھاجاتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں ہے حالانکہ تمام اداکار ٹی وی کے ہیں۔



یہاں پولیس انسپکٹر کا کردار ادا کرنے والے راشد فاروقی کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہوگی جنھوں نے مشکل کردار اچھے طریقے سے نبھایا اس کے علاوہ سلیم مراج قابل تعریف تھے اور خاص کر کسی بھی فلم میں چھوٹے کردار اوور ایکٹنگ کی وجہ سے فلم برباد کر دیتے ہیں مگر لال کبوتر میں ہر ایک نے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا۔

فلم کا ایک اور شعبہ جو قابل تعریف ہے وہ عکاسی کا ہے فلم میں کراچی کی لوکیشن کو انتہائی اچھے طریقے سے فلمایا اور کافی عرصے کے بعد پوش علاقوں کی بجائے کہانی کی ضروریات کے مطابق عام علاقے اور عام لوگوں کا رہن سہن نظر آیا۔ کچھ فلموں میں ڈرون کیمرہ کا استعمال اتنا بے تکا سا ہوتا ہے کہ بوجھ سا لگنے لگتا ہے مگر لال کبوتر میں اس کا استعمال بھی خوبصورتی سے کیا گیا خاص کر گھروں کی چھتوں اور سڑکوں کو ایک ہی وقت میں خوبصورت فلمایا گیا۔

فلم میں بیک گراونڈ میوزک اچھا ہے اور ضرورت کے مطابق ہے جہاں جہاں ضرورت نہیں تھی وہاں نہیں ہے کیونکہ بعض وقت زیادہ میوزک دیکھنے والوں پر بوجھ لگتا ہے۔ فلم میں گانے زیادہ نہیں اور کہانی کی وجہ سے ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی اور زبردستی گانے بھرتی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی البتہ مٹی کے باوے والا اچھا ریمکس ہے۔

فلم کے جتنے بھی شعبے ہیں وہ ہدایتکار کے کنڑول میں ہوتے ہیں اس لیے یہ کمال خان کا کمال ہے۔ لال کبوتر ملٹی اسٹار کاسٹ فلم نہیں اور نہ ہی کوئی بہت زیادہ مہنگے سیٹ والی فلم ہے۔ اس میں کوئی آئٹم سانگ نہیں اس لیے سارا کریڈٹ ہدایتکار کا ہے جس نے ڈانس مہنگے سیٹ یا لوکیشن کی بجائے اپنی صلاحیتوں سے سب کو حیران کیا ہے۔

لال کبوتر فلم انڈسٹری کے لیے واقعی ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اب فلم انڈسٹری پر کوئی برا وقت ہے لیکن جب سے انڈسٹری بحال ہوئی ہے تب سے زیادہ تر مزاحیہ فلمیں پسند کی جا رہی ہیں جس سے یہ لگنے لگا تھا کہ شاید یہاں پڑوسی ملک کی طرح یا ہالی ووڈ کی طرح سنجیدہ فلمیں یا ایکشن فلمیں بنانے کی صلاحیت نہیں مگر لال کبوتر نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا ہے۔

اگر باقی ملکوں میں کمرشل فلموں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ایکشن کرائم اور آرٹ فلموں کو پسند کیا جاتا ہے توہمارے ہاں بھی مزاحیہ موضوع کےساتھ باقی اچھوتے موضوعات پر مبنی فلموں کا بننا اور کامیاب ہونا انڈسٹری کے لئے بہت ضروری ہے۔

جن لوگوں کومزاح پسند ہے وہ تو شاید اس فلم کو زیادہ پسند نہ کریں مگر ایکشن، سسپنس کرائم اور ڈرامہ فلمیں دیکھنے والوں کو یہ فلم ضرور پسند آئے گی۔

اس فلم کو پانچ میں سے چار سٹارز یا دس میں سے آٹھ نمبرز باآسانی دیے جا سکتے ہیں۔

مزید خبریں :