31 جولائی ، 2019
سندھ کے مختلف شہروں میں طوفانی بارش تو تھم گئی لیکن مشکلوں کی برسات تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
کراچی میں تھڈو ڈیم سے آبادی کی طرف پانی کے تیز بہاؤ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاک فوج کی جانب سے ڈیم کی طرف سے آنے والے پانی کو 5 مختلف مقامات پر روکا گیا ہے۔
سعدی ٹاؤن کے بعد برساتی پانی کا بڑا ریلا گلشنِ مہران میں داخل ہوگیا ہے، یہاں بھی فوج کی انجینئرنگ کور اور امدادی ٹیموں نے نکاسی آب کے کاموں کے علاوہ پانی میں پھنسے لوگوں کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
پاک فوج کی انجینئر کور نے 800 میٹر کا عارضی بند بنا کر پانی کو سعدی ٹاؤن کی طرف آنے سے روک دیا۔
کے ڈی اے اسکیم 33 کے گرڈ اسٹیشن کے اطراف بھی پاک فوج کی خصوصی ٹیمیں نکاسی آب میں مصروف ہیں۔
برساتی ریلے کے باعث نادرن بائی پاس کا کچھ حصہ پانی میں بہہ گیا اور یہ اہم شاہراہ ہر قسم کے ٹریفک کیلئے بند کردی گئی ہے۔
گڈز ٹرانسپورٹرز کے مطابق ناردرن بائی پاس سے ہر روز 700 کے لگ بھگ ٹرک اور ٹرالر تجارتی مال بندرگاہ لے کر جاتے ہیں۔ سڑک بند ہونے سے ان کا کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔
ملیر ندی میں بھی پانی کی سطح کافی بلند ہوگئی ہے جس کے بعد کورنگی کاز وے کو عارضی طور پر بند کردیا گیا ہے۔ کاز وے بند ہونے سے قیوم آباد اور ملحقہ سڑکوں پر شدید ٹریفک جام ہوگیا اور دفاتر سے گھر جانے والے ہزاروں شہری متاثر ہوئے۔
سٹی کورٹ میں بھی پانی کی نکاسی نہیں کی جاسکی جس سے پیشی کیلئے لائے گئے قیدیوں اور سائلیں کو مشکلات کا سامنا رہا۔
بارش اور سیوریج کے پانی کے باعث لیاقت آباد سے حسن اسکوائر جانے والا انڈر پاس ٹریفک کے لیے بند ہے جب کہ کھارادر میں وزیر مینشن کے اطراف سڑکیں اور گلیاں ڈوبی ہوئی ہیں۔
ناظم آباد کے ڈی اے چورنگی سے سخی حسن تک سڑک دھنس گئی جب کہ سپرہائی وے پر بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔
شہر کے کئی قبرستان بھی متاثر ہوئے ہیں جہاں بارش کا پانی قبروں میں داخل ہوگیا ہے۔
سپر ہائی وے پر قائم مویشی منڈی میں بھی پانی بھر گیا ہے جس کی وجہ سے بیوپاریوں، خریداروں اور جانوروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
کمشنر کراچی کا کہنا ہے کہ کازوے پر ٹریفک بحال ہونے میں دو سے تین دن لگ سکتے ہیں۔
کراچی میں دو روز تک مسلسل تیز بارش ہوئی جس کے باعث سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا جب کہ متعدد علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی۔
کراچی سپرہائی وے کے ڈی اے اسکیم 33 کے گرڈ اسٹیشن میں سیلابی ریلا داخل ہونے کی وجہ سے گرڈ اسٹیشن کے ایک حصے کو بند کردیا گیا۔
اسکیم 33 میں متعدد رہائشی سوسائٹیز، نارتھ ناظم آباد بلاک ایف، ایف بی ایریا، کیماڑی اور ملیر سمیت کئی علاقوں میں بجلی اب بھی معطل ہے۔
کے الیکٹرک اور ضلعی انتظامیہ نے ہیوی مشینری کی مدد سے ریتی کا بندھ باندھ دیا جب کہ پاک فوج کے جوان گرڈ اسٹیشن کے اندر سکشن پمپ لگا کر پانی نکالنے میں مصروف ہیں۔
ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ لانڈھی اور کورنگی کے صنعتی علاقے، گڈاپ، ملیر، ملیرکینٹ، گلستان جوہر، کاٹھور، لانڈھی، کھوکھرا پار، شاہ فیصل کالونی، کورنگی، گلشن معمار اور احسن آباد کے علاقے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ شہریوں کی مشکلات پر معذرت خواہ ہیں، بجلی کی بحالی کا کام جاری ہے۔
پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی لڑائی میں کراچی والے پس گئے، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی تو تو میں میں ختم نہ ہوئی۔
وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے پھر میئر کراچی کو آڑے ہاتھوں لے لیا اور کہا کہ اندر کچھ، باہر کچھ یہ طریقہ نہیں چلے گا، اگر نالے صاف نہیں کرسکتے تو بتا دیں،،، پھر کہیں گے سارے اختیارات لے لیے۔
اس کے جواب میں ایم کیو ایم والے بھی میدان میں آگئے اور کہا کہ بلاول بھٹو آئین کی دہائیاں دیتے ہیں، سندھ کے شہری علاقوں کی حالت دیکھ کر آئین نظر نہیں آتا، شہر کے وسائل پر سندھ حکومت عیاشی کر رہی ہے۔
بہادر آباد میں پریس کانفرنس میں متحدہ رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ سندھ کے تمام اداروں پر پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے۔ عدالتیں بھی کراچی توڑنے کے احکامات تو دیتی ہیں لیکن بنانے کے نہیں۔
ادھر تحریک انصاف نے مؤقف اختیار کیا کہ شہر میں گوٹھوں کے نام پر ندی نالوں پر قبضے ہوئے، حکومت سندھ کی نااہلی سے بحرانی صورتحال نے جنم لیا۔
ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوں اتحادیوں نے کراچی میں کرنٹ لگنے کے واقعات سے جانی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کے الیکٹرک کے کردار پر بھی شدید تنقید کی۔
میئر کراچی وسیم اختر نے وزیر بلدیات سندھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسکیم 33 کے ڈی اے کی ملکیت ہے اور کے ڈی اے اب تک کے ایم سی کو ٹرانسفر نہیں ہوا ہے لہٰذا کے ڈی اے کے معاملات کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے جو کسی کام پر توجہ نہیں دے رہی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی خصوصی ٹیمیں سپرہائی وے، گڈاپ، لانڈھی، کورنگی اور لٹھ ڈیم سمیت بارش سے متاثرہ مختلف علاقوں میں پہنچ گئی ہیں اور امدادی کام شروع کردیا ہے۔
دو روزہ بارشوں کی وجہ سے حب ڈیم میں بھی پانی کی سطح 310 فٹ ہوگئی ہے۔امدادی سرگرمیوں میں بلدیہ اور کنٹونمنٹ بورڈ کے اہلکاروں کے علاوہ رینجرز کے جوان بھی حصہ لے رہے ہیں۔
دوسری جانب حیدرآباد میں طوفانی بارش کے بعد انتظامیہ کی نااہلی سامنے آگئی ہے، قاسم آباد اور لطیف آباد سمیت متعدد علاقوں میں اب بھی کئی کئی فٹ پانی جمع ہے۔
طوفانی بارش کے باعث حیدر آباد کے نشیبی علاقوں کی آبادی پانی میں پھنس گئی اور کئی علاقے بجلی سے محروم ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹرینوں کا شیڈول متاثر
بارش کے باعث کراچی میں ٹرینوں کا شیڈول بھی بری طرح متاثر ہوا۔ کراچی سے فیصل آباد جانے والی ملت ایکسپریس اور بزنس ٹرین وقتی طور پر بند کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اندرون ملک جانے والی دیگر ٹرینوں کی روانگی بھی کئی کئی گھنٹے تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہزاروں مسافروں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال بہتر ہونے میں ایک دو روز لگیں گے۔
ملک کے دیگر شہروں میں بارش کا امکان
محکمہ موسمیات کے مطابق آج اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، گوجرانوالا، مالاکنڈ، ہزارہ، مردان، ژوب، گلگت بلتستان اور کشمیر میں بارش کا امکان ہے جب کہ کراچی میں مزید تیز بارشوں کا خطرہ ٹل گیا ہے اور بارش برسانے والا سسٹم گزر گیا ہے۔