کھیل

محمد عامر 'اے' سے 'سی' کیٹیگری میں کیوں آئے؟

محمد عامر نے پچھلے دنوں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے خود کو لمیٹڈ اوورز کی کرکٹ تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے— فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نےگذشتہ سال سینٹرل کنٹریکٹ لینے والوں میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس کی زیادہ توجہ اس وقت ٹیسٹ کرکٹ پر ہے کیونکہ آنے والے سیزن میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو سری لنکا، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے خلاف مجموعی طور پر 6 ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں۔

فاسٹ بولر جنید خان اور فہیم اشرف بھی نئے کنٹریکٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔سینٹرل کنٹریکٹ میں جن کرکٹرز کی ترقی ہوئی ہے ان میں امام الحق، حارث سہیل، وہاب ریاض اور شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں۔

وہاب ریاض، امام الحق اور حارث سہیل ’سی‘ سے ’بی‘ کیٹگری میں آئے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی گذشتہ سال ’ای‘ کیٹگری میں تھے لیکن اس سال اپنی عمدہ کارکردگی کی بدولت وہ ’بی‘ کیٹگری میں شامل کیے گئے ہیں۔

آصف علی، بلال آصف، حسین طلعت، میر حمزہ، محمد نواز، سعد علی، صاحبزادہ فرحان، راحت علی، رومان رئیس، عمید آصف اور عثمان صلاح الدین کو بھی سینٹرل کنٹریکٹ نہیں دیا گیا۔

نئے سینٹرل کنٹریکٹ میں جو کھلاڑی اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ان میں سب سے اہم نام فاسٹ بولر محمد عامر کا ہے۔

گذشتہ سینٹرل کنٹریکٹ میں وہ اے کیٹگری میں شامل تھے لیکن اب انہیں سی کیٹگری دی گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد عامر نے پچھلے دنوں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے خود کو لمیٹڈ اوورز کی کرکٹ تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اظہر علی گذشتہ سینٹرل کنٹریکٹ میں ’اے‘ کیٹگری میں شامل تھے لیکن نئے کنٹریکٹ میں وہ بی کیٹگری میں شامل ہیں۔ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی دکھانے والے دو کرکٹرز حسن علی اور فخر زمان کی کیٹگریز میں بھی تنزلی ہوئی ہے اور یہ دونوں ’بی‘ سے ’سی‘ کیٹگری میں آ گئے ہیں۔

پاکستان ٹیم نے ایک سال کے دوران 6 ٹیسٹ ، تین ون ڈے انٹر نیشنل اور 9 ٹی ٹوئنٹی انٹر نیشنل کھیلنے ہیں۔

پی سی بی کا کہنا ہے کہ ریڈ بال کرکٹ کی اہمیت کومدنظر رکھتے ہوئےکپتان سرفراز احمد، مڈل آرڈر بیٹسمین بابر اعظم اور لیگ اسپنر یاسر شاہ کو  اے کٹیگری دی گئی ہے۔

یاسر شاہ نے گذشتہ سال سات ٹیسٹ میں سب سے زیادہ 38 وکٹیں لیں۔ پی سی بی ترجمان کا کہنا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کی تقرری کے بعد اگر سلیکٹرز چاہیں گے تو کسی کھلاڑی کو اس فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں :