بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کی: امریکا میں پاکستانی سفیر


واشنگٹن: امریکا میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو عالمی برادری متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہے لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

امریکی ٹی وی کو اںٹرویو  میں اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات نے کشیدگی میں اضافہ کیا، مقبوضہ کشمیر کو عالمی برادری متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہے اور بھارتی اقدامات سے خطہ سنگین تنازع کے دہانے پر آگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیر کے بحران کو ہوا دے رہا ہے، ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کو کشمیریوں نے سراہا تھا لیکن آرٹیکل 370 منسوخ کرکے بھارت نے امریکی پیشکش کو ٹھکرایا ہے، غرور میں مبتلا بھارت کو خطے کے امن اور استحکام کی پرواہ نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کی، اقوام متحدہ، امریکا اور دوست ممالک کو چاہئے کہ وہ اس معاملے پر مداخلت کریں۔

امریکا میں پاکستان کے سفیر کے مطابق 5 اگست بھارت کے نام نہاد سیکولر جہمہوریت ہونےکے دعوے میں آخری کیل تھی، بی جے پی پسے ہوئے مسلمانوں، مسیحیوں اور دلتوں کو بےحیثیت بناناچاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت اس بار سرحدپار دہشت گردی کے جھوٹے الزامات سے جان نہیں چھڑاسکے گا، بھارت کشمیر میں جبر اور ناجائز قبضے کی بھیانک حقیقت سے توجہ نہیں ہٹاسکے گا۔

ڈاکٹر اسد مجید خان نے کہا کہ بھارت کو تنازع کھڑا کرنے سے روکنے کیلئے امریکا جو ممکن ہو کرے، امریکی کوششوں اور پاکستان کے تعاون سے افغانستان میں امن تک رسائی ہوئی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ وقت ہے کہ امریکا صدرٹرمپ کی پیشکش کو عملی جامہ پہنائے اور پاکستان یا بھارت کے لیے نہیں بلکہ زبان بند کشمیریوں کے لیے ثالثی کی جائے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیش کش کی تھی جس کا پاکستان نے خیرمقدم کیا تھا لیکن مودی حکومت نے اس پیش کش کو ٹھکرادیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر

بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔

راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے۔ بھارت نے 6 اگست کو لوک سبھا سے بھی دونوں بل بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔

آرٹیکل 370 کیا ہے؟

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔

بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔

پاکستان کا رد عمل

پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی اور اقوام متحدہ، سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر یہ معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان نے فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی اقدم کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

وزیر ریلوے شیخ رشید نے سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا تو وہیں اب لاہور سے دہلی جانے والی دوستی بس سروس اور لاہور سے امرتسر جانے والی امرتسر بس سروس بھی بند کردی ہے۔

چین کا بھارتی اقدام پر مؤقف

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پرکشیدگی اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے متعلق سوالات پر تحریری جواب میں کہا کہ چین کو کشمیر کی موجودہ صورتحال پر 'شدید تشویش' ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ چین نے سرحدی علاقے میں بھارتی مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اس بارے میں ہمارا مؤقف واضح اور مستقل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنا قانون یکطرفہ تبدیل کرکے ہماری خودمختاری کو نقصان پہنچایا، ایسے اقدامات ناقابل قبول اور کبھی قابل عمل نہیں ہوسکتے۔

ترجمان کے مطابق بھارت سرحدی معاملات پر بیان اور عمل میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور بھارت چین سے کیے گئے معاہدوں پر قائم رہے، بھارت ایسے کسی بھی عمل سے باز رہےجو سرحدی امور کو مزید مشکل بنادے۔

مزید خبریں :