16 اگست ، 2019
نیویارک: مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کا معاملہ 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچ گیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خصوصی اجلاس ہوا۔ اس بندکمرہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک کے مندوبین اجلاس میں شریک ہوئے۔
یو این ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس لوئٹے نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی۔
اقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکریٹری جنرل آسکر فرنانڈس نے بھی شرکاء کو بریفنگ دی۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس 1 گھنٹہ 10 منٹ جاری رہا۔
پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی اور چین نے بھی میٹنگ بلانےکامطالبہ کیاتھا۔
کشمیر کی صورتحال پر ارکان نے گہری تشویش کا اظہار کیا، چینی مندوب
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے کہا کہ سیکیورٹی کونسل اجلاس میں کشمیر کےمعاملے پر تفصیلی بات ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کی صورتحال پر ارکان نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔
چینی مندوب ژینگ جون نے مزید کہا کہ بھارتی اقدام نے چین کی خود مختاری کو بھی چیلنج کیا ہے۔
چینی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ارکان کو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تحفظات ہیں اور فریقین کو کسی بھی ایسے یکطرفہ اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو صورتحال کو مزید خراب کردے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب مسئلہ ہے، کسی بھی فریق کو اس معاملے میں یکطرفہ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے، کشمیر کی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہے۔
اقوام متحدہ میں چینی مندوب نے کہا کہ بھارت کی آئینی ترمیم نے کشمیر کی صورت حال تبدیل کی، جس سے خطے میں کشیدگی بڑھی، مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
چینی مندوب نے کہا کہ چین کی خود مختاری کو چیلنج کیے جانے پر چین کو تشویش ہے، پاکستان، چین اور بھارت آپس میں پڑوسی ہیں، پاکستان اور بھارت ترقی کے دوراہے پر کھڑے ہیں، پاکستان اور بھارت دونوں سے اپیل ہے کہ معاملےکا پُرامن حل تلاش کریں۔
سلامتی کونسل اجلاس سے بھارتی مؤقف کی نفی ہوئی ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے، ملیحہ لودھی
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا خیر مقدم کرتا ہے۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا پُرامن حل چاہتے ہیں، نہتے کشمیریوں کی آواز آج اعلیٰ ترین فورم پر سنی گئی ہے، اجلاس پاکستانی وزیر خارجہ کے خط پر طلب کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں پر ظلم و جبر کیا جارہاہے، کشمیریوں کو قید کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی آواز نہیں دبائی جا سکتی۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آواز سب سے بڑے بین الاقوامی فورم پر سنی گئی ہے، پاکستان نے یہ کوشش مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کیلئے کی ہے اور یہ مسئلے کے حل تک جاری رہے گی۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل کے آج کے اجلاس بھارتی مؤقف کی نفی ہوئی ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت بھارت کی جانب سے یکطرفہ بدلنے کے معاملے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے خط لکھا تھا۔
50 برس بعد مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کےایجنڈے پر آنے سے پاکستان کی سفارتی فتح ہوئی ہے جب کہ اجلاس روکنے میں ناکام بھارت کو منہ کی کھانا پڑگئی ہے۔
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے۔ بھارت نے 6 اگست کو لوک سبھا سے بھی دونوں بل بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی اور اقوام متحدہ، سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر یہ معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان نے فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی اقدم کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
وزیر ریلوے شیخ رشید نے سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا تو وہیں اب لاہور سے دہلی جانے والی دوستی بس سروس اور لاہور سے امرتسر جانے والی امرتسر بس سروس بھی بند کردی ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پرکشیدگی اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے متعلق سوالات پر تحریری جواب میں کہا کہ چین کو کشمیر کی موجودہ صورتحال پر 'شدید تشویش' ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ چین نے سرحدی علاقے میں بھارتی مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اس بارے میں ہمارا مؤقف واضح اور مستقل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنا قانون یکطرفہ تبدیل کرکے ہماری خودمختاری کو نقصان پہنچایا، ایسے اقدامات ناقابل قبول اور کبھی قابل عمل نہیں ہوسکتے۔
ترجمان کے مطابق بھارت سرحدی معاملات پر بیان اور عمل میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور بھارت چین سے کیے گئے معاہدوں پر قائم رہے، بھارت ایسے کسی بھی عمل سے باز رہےجو سرحدی امور کو مزید مشکل بنادے۔
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں 6 کشمیری شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج نے 8 اگست کو کشمیر میں احتجاج کرنے والے تقریباً 500 کشمیریوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے جبکہ حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور دیگر نظر بند ہیں۔