ویڈیو اسکینڈل: رہائی کی درخواست ہو تو نوازشریف کیلئے ویڈیو فائدہ مند ہوگی: چیف جسٹس


اسلام آباد: احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ نوازشریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل انور منصور خان اور ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ تحقیقات مکمل کرنے کیلئے 3 ہفتے کا وقت دیا گیا تھا، اس رپورٹ میں 2 ویڈیوز کا معاملہ تھا، ایک ویڈیو وہ تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا گیا اور دوسری ویڈیو وہ تھی جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔

کیا وہ مبینہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کرایا تھا؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ناصرجنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ ارشد ملک کو انہوں نے تعینات کرایا، کیا وہ مبینہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کرایا تھا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ارشد ملک کی تعیناتی والا مبینہ شخص سامنے نہیں آیا، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے اس وقت کی حکومت نے پاناما فیصلے کے بعد ارشد ملک کی تعیناتی کی، رپورٹ کے مطابق ناصرجنجوعہ دعویٰ کررہا ہے کہ ارشد ملک کو اس نے تعینات کرایا۔

پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ویڈیو کا فارنزک کرایا گیا؟ جسٹس عظمت سعید

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ارشد ملک کی ویڈیو کا فارنزک تجزیہ کیا گیا؟ اس پر ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کیا کہ ویڈیو ہمارے پاس نہیں۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ویڈیو سوائے ایف آئی اے کے پورے پاکستان کے پاس ہے، سارا پاکستان اور عدالت ایک ہی سوال پوچھ رہی ہے، کیا وہ ویڈیو صحیح ہے؟

ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اس ویڈیو کا فارنزک نہیں ہوا، جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو ویڈیو کے فارنزک کی بھی یقین دہانی کرائی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ سے ابہام پیدا ہوا ہے، غالباً 2 ویڈیوز تھیں، قابل اعتراض ویڈیو وہ تھی جس سے جج کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی، دوسری ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔

کیا کسی نے ویڈیو کی بنیاد پر قانونی فائدہ اٹھانے کیلئے درخواست دی؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا قانونی فائدہ اٹھانے کیلئے کسی عدالت میں کوئی درخواست دی گئی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی، یہ دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کی کاپی کا فارنزک ہوسکتا ہے یانہیں، یہ بھی دیکھنا ہے کہ یوٹیوب ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے یا نہیں۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے یہ کہانی بنائی وہ اس سے لاتعلق ہوگئے۔

ارشد ملک کی حرکت سے ہزاروں دیانتدار ججوں کے سر شرم سے جھک گئے، چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سب سے پہلے یہ ویڈیو اصل ثابت ہوگی تو کافی اثرانداز ہوگی، جج ارشد ملک کا ایک ماضی ہے جسے وہ مان رہے ہیں، انہیں تو کوئی بھی بلیک میل کرسکتا ہے، جسے سزا دی اس کے گھرچلے گئے، اس کے بیٹے سے ملنے سعودیہ چلے گئے، کیوں؟ ارشد ملک کی حرکت سے ہزاروں دیانتدار اور محنتی ججوں کے سرشرم سےجھک گئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ اس سارے معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں، ہمارا تعلق اپنے جج سے ہے، اس کے کردار پر بہت سے سوالیہ نشان آگئے ہیں، جج نے بہت سی چیزیں حلف نامے اور پریس ریلیز میں بتائیں، معلوم نہیں جج صاحب کو کس نے مشورہ دیا۔

ویڈیو کو اصل ثابت کرنا مشکل کام ہوگا، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس ویڈیو کو اصل ثابت کرنا بہت مشکل کام ہوگا، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ قابل اعتراض ویڈیو پرتو جج نے بھی اعتراف کیا ہے لیکن جو پریس کانفرنس میں دکھائی وہ اصل ثابت کیسے ہوگی؟ ویڈیو معاملہ ماہرین سے کلیئر کرائیں کہ فارنزک ہوسکتا ہے یا نہیں، رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ آڈیو رکارڈنگ الگ کی گئی، پریس کانفرنس کے دوران ویڈیو کا سب ٹائٹل بھی چل رہا تھا، لگتا ہے ویڈیو کے ساتھ کسی نے کھیلا ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور دو تین دن میں ہم اس معاملے پر فیصلہ دیں گے۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے ویڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر پہلی سماعت 16 جولائی کو سماعت ہوئی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا۔

مزید خبریں :