29 اگست ، 2019
فاطمہ مسلسل روئے چلی جا رہی تھی۔ بلوندر سنگھ بار بار اُسے دلاسا دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا اوئے چھوٹی اپنے آپ کو سنبھال جو بات کہنے آئی ہے وہ بتا، بھائی جی بڑے مصروف آدمی ہیں تو نے تو سارا ٹائم رونے میں ضائع کردیا۔ میں نے پانی کی بوتل کھولی اور فاطمہ کی طرف بڑھا کر کہا کہ آپ تھوڑا پانی پی لیں۔ فاطمہ نے پانی پیا اور پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے خالص کشمیری لہجے میں ملی جلی اُردو اور انگریزی بولنے لگی۔ اُس نے کہا میں بڑی اُمید لے کر آپ کے پاس آئی ہوں، آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دے دیا اور ہمیں معاف کر دیں ہم نے آپ کے ساتھ علیحدگی میں ملاقات پر اصرار کیا اگر آپ مصروفیت کا بہانہ بنا کر ہمیں وقت نہ دیتے تو ہم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ فاطمہ اور بلوندر کے ساتھ میری ملاقات اجیت کے ذریعہ ہوئی۔ لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے ساتھ جیو نیوز کے لئے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد میں مانچسٹر سے رکن پارلیمنٹ افضل خان کا شکریہ ادا کر رہا تھا کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان لڑکی نے سرگوشی کے انداز میں مجھے ہیلو کیا اور پھر پنجابی میں کہا کہ میری ایک دوست کا تعلق سرینگر سے ہے وہ آپ کو ملنا چاہتی ہے۔
میں نے کہا آپ کی دوست کہاں ہے؟ لڑکی نے کہا میری دوست یہاں نہیں آ سکتی، کچھ پرابلم ہے۔ آپ سے بنتی ہے کہ آپ ہمیں آج شام کو ملاقات کا وقت دے دیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ بنتی کا لفظ استعمال کرنے والی یہ لڑکی ہندو یا سکھ ہے۔ میں نے پوچھا آپ کون؟ اُس نے کہا کہ ’’آئی ایم اجیت‘‘۔ وہ بار بار کچھ دور کھڑے گورچرن سنگھ کی طرف دیکھ رہی تھی اور اُس کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ گورچرن کو جانتی ہیں؟ اجیت نے کہا کہ گورچرن جی میرے بڑے بھائی بلوندر کے دوست ہیں یہ آپ کے پروگرام میں شریک تھے ان پر انڈین گورنمنٹ نے بہت سے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں اور انہی کی وجہ سے میری کشمیری دوست آپ کو یہاں نہیں مل رہی کیونکہ گورچرن بھائی سے ملنے جلنے والوں کی وڈیو اور تصویریں بنا کر اُن کی شناخت ڈھونڈ لی جاتی ہے اور اس وقت میری دوست اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہے کیونکہ اُس کی فیملی انڈیا میں بڑی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔
میں نے اجیت کو بتایا کہ آج شام کو مصروف ہوں، کل صبح آپ میرے ہوٹل آ جائیں۔ اجیت نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا آپ بُرا نہ منانا ہم ہوٹل میں بھی نہیں مل سکتے کیونکہ ہمیں پتا ہے یہاں آپ پر بھی بہت لوگوں کی نظر ہے۔ اُس نے مجھے آکسفورڈ اسٹریٹ پر ایک اٹالین ریسٹورنٹ کا ایڈریس دیا اور اگلے دن صبح دس بجے وہاں ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔
اگلے دن مقررہ وقت پر اجیت اپنی دوست کشمیری لڑکی کے ساتھ ملاقات کے لئے آئی تو ساتھ میں ایک لمبا تڑنگا سکھ نوجوان بھی تھا۔ یہ بلوندر تھا جو اجیت کا بڑا بھائی تھا۔ اس کشمیری لڑکی نے مجھے اپنا جو نام بتایا وہ میں پورا نہیں لکھ رہا صرف نام کا دوسرا حصہ فاطمہ لکھا رہا ہوں۔
فاطمہ اور بلوندر کو میرے ساتھ بٹھا کر اجیت نے ہمارے لئے چائے پانی کا آرڈر دیا اور ریسٹورنٹ سے باہر جا کر بیٹھ گئی۔ ہماری ملاقات شروع ہوئی تو فاطمہ نے رونا شروع کر دیا۔ اب آہستہ آہستہ وہ ٹشو پیپر سے اپنے آنسو خشک کر کے مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ فاطمہ کے والد سرینگر میں کشمیری شالوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے فاطمہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی کے ایک کالج میں داخلہ مل گیا تو اُس کے والد نے دہلی میں ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ وہ بیٹی کے ساتھ دہلی آ گئے اور وہاں کشمیری شالوں کے کاروبار کو پھیلانے کی کوشش کی۔ دو سال کے بعد فاطمہ کی ایک اور بہن کو بھی دہلی میں داخلہ مل گیا تو فاطمہ کی باقی دو بہنیں اور والدہ بھی دہلی آ گئے۔
اس دوران فاطمہ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے برطانیہ آ گئی۔ 5اگست 2019کو بھارتی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا تو فاطمہ کے والد سرینگر میں اور دو بہنیں والدہ کے ساتھ دہلی میں تھیں۔ فاطمہ اور اس کی فیملی کا اپنے والد سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس دوران دہلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں کشمیریوں پر حملے شروع ہو گئے اور کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آنے لگے۔ دہلی میں زیر تعلیم بہت سی کشمیری طالبات کے اپنے خاندانوں کے ساتھ رابطے ختم ہو گئے۔
فاطمہ کی ایک کزن اور سہیلی کا تعلق بھی سرینگر سے ہے۔ یہ دونوں بھی دہلی کے ایک ہوٹل میں مقیم تھیں۔ دہلی میں ہندو لڑکوں نے کشمیری لڑکیوں کو ہراساں کرنا شروع کیا تو فاطمہ کی کزن اور سہیلی دہلی میں اُس کی بہنوں کے پاس آ گئیں۔ اب ایک چھوٹے سے فلیٹ میں چار لڑکیاں اور ایک خاتون مقیم تھیں جو دن رات سرینگر میں اپنے خاندانوں سے رابطے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں ان سب کی پریشانی ایک تماشہ بن گئی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے ان نہتی لڑکیوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ پچھلے ہفتے فاطمہ کے والد کسی طریقے سے واپس دہلی پہنچے۔ اُنہوں نے اپنے فلیٹ پر مقیم چار جوان لڑکیوں کی عزت بچانے کے لئے دبئی میں مقیم اپنے دوست ظفر نائیک سے رابطہ کیا۔ ظفر نائیک نے ان لڑکیوں کو ایک اور خلیجی ملک لانے کا بندوبست کر لیا لیکن اس دوران ان کا فون بند ہو گیا۔ فاطمہ بتا رہی تھی کہ دو دن پہلے اُس کی بہن کو دہلی میں اغواء کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔
اس دوران فاطمہ کے والد نے ظفر نائیک کا ذکر میرے ایک حالیہ کالم میں پڑھا تو مجھ سے رابطے کی کوشش کی۔ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ پھر اُنہیں پتا چلا کہ میں برطانیہ آیا ہوا ہوں تو اُنہوں نے فاطمہ سے کہا کہ کسی طرح حامد میر تک پہنچو اور ظفر نائیک کا رابطہ مانگو۔ فاطمہ نے کہا کہ اب میرے والد اور باقی خاندان کو بلوندر بھائی کے چچا نے جالندھر میں اپنے گھر پناہ دے رکھی ہے۔ ہمیں ظفر نائیک کا فون نمبر چاہئے۔ میں نے فاطمہ کو بتایا کہ ظفر نائیک نے دو ہفتے پہلے دبئی چھوڑ دیا ہے اور دوحہ چلے گئے ہیں اُن کا نمبر بدل گیا ہے اور طبیعت بھی ناساز ہے۔ بہرحال میں نے کچھ تگ و دو کے بعد ظفر نائیک کو تلاش کر لیا تو وہ واقعی بیمار تھے۔
اُنہوں نے فاطمہ کے ساتھ فون پر بات کر لی اور کہا کہ میں بیماری کے باعث آپ کے والد سے رابطہ نہ کر سکا آج ہی رابطہ کرتا ہوں اور تمہاری بہنوں کو دوحہ بلاتا ہوں۔ پھر فاطمہ نے اپنے والد کو بھی یہ خوشخبری سنا دی۔ اب اُس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اُسے سب کچھ مل گیا ہے۔
رخصت ہوتے وقت بلوندر سنگھ نے مجھے کہا کہ ہم نے مل جل کر چار کشمیری لڑکیوں کی عزت تو بچا لی لیکن ہزاروں لاکھوں کشمیری بہنوں کی عزتیں خطرے میں ہیں، آپ کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ ہر جمعہ کو آدھ گھنٹہ کے لئے بھارت کے خلاف احتجاج کرو کیا اس طرح بہنوں کی عزت بچائی جاتی ہے؟