دنیا
Time 04 ستمبر ، 2019

برطانوی پارلیمان میں وزیراعظم بورس جانسن کی بریگزٹ پالیسی کو ایک اور شکست

ارکان پارلیمنٹ نے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں یورپی یونین سے برطانیہ کے علیحدہ ہونے کی تاریخ میں توسیع کے حق میں ووٹ دے دیا— فوٹو : فائل

برطانوی پارلیمان میں وزیراعظم بورس جانسن کی بریگزٹ پالیسی کو ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ارکان پارلیمنٹ نے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں یورپی یونین سے برطانیہ کے علیحدہ ہونے کی تاریخ میں توسیع کے حق میں ووٹ دے دیا۔

329 ارکان پارلیمان نے بریگزٹ تاریخ میں توسیع کے حق میں ووٹ دیے، بریگزٹ میں توسیع پر ایک اور ووٹنگ جلد ہوگی۔

دوسرے مرحلے میں کامیابی کی صورت میں بریگزٹ میں توسیع کی تحریک منظوری کیلئے ہاؤس آف لارڈز جائے گی۔

ہاؤس آف لارڈز سے اگر منظوری ہوگئی تو وزیراعظم بورس جانسن اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ بریگزٹ کی تاریخ میں توسیع کے معاملے میں پارلیمنٹ کی منظوری لیں۔

بورس جانسن نے کہا ہے کہ اگر بل منظور ہوگیا تو وہ قبل از وقت انتخابات کی درخواست کردیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں ملکہ برطانیہ نے وزیر اعظم بورس جانسن کی درخواست پر 5 ہفتوں کیلئے برطانوی پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری دی تھی۔

برطانوی وزیراعظم نے ملکہ برطانیہ سے 11 ستمبر سے شروع ہونے والے برطانوی پارلیمنٹ کے سیشن کو معطل کرنے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ ملکہ الزبتھ دوئم پارلیمان سے اپنا خطاب 14 اکتوبر تک مؤخر کردیں۔

برطانیہ کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بورس جانسن پارلیمانی منظوری کے بغیر یورپی یونین سے بغیر کسی معاہدے کے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں لیکن بورس جانسن کا کہنا ہے کہ 14 اکتوبر کے بعد بھی ارکان پارلیمان کے پاس نو ڈیل بریگزٹ پر بحث کیلئے کافی وقت ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بورس جانسن نے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی درخواست اس لیے کی تاکہ ارکان پارلیمنٹ نو ڈیل بریگزٹ کو روکنے کیلئے کوئی قانون سازی نہ کرلیں۔

تاہم اس کے باوجود پارلیمنٹ میں نوڈیل بریگزٹ کو روکنے کیلئے بل پیش کردیا گیا اور حکومتی ارکان نے بھی وزیراعظم کے فیصلے کے خلاف اپوزیشن کے ساتھ مل کر بل کے حق میں ووٹ دیے۔

خیال رہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا۔

ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔

برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 جبکہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔

واضح رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

مزید خبریں :