05 ستمبر ، 2019
رحیم یارخان میں زیر حراست ملزم صلاح الدین کی ہلاکت کے معاملے پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) رحیم یار خان کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنادیا۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم بھی دے دیا،جوڈیشل کمیشن کے قیام کیلئے چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کو درخواست بھیج دی گئی۔
لاہورہائیکورٹ کے ایک فاضل جج اس معاملے کی انکوائری کریں گے۔
پنجاب حکومت کے مطابق واقعے پر ایس ایچ او سمیت 3 اہلکاروں کے خلاف قتل کامقدمہ درج کرلیا گیا ہے جب کہ ڈی ایس پی سمیت دیگر ملوث اہلکاروں کو معطل بھی کیا جاچکا ہے جس کے بعد صلاح الدین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظارہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات ایس پی انویسٹی گیشن حبیب اللہ خان کی سربراہی میں کی جارہی ہیں جب کہ ایس ایچ او سمیت مطلوب اہلکار ضمانت کرانے کے بعد شامل تفتیش ہوگئے ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل رحیم یار خان میں اے ٹی ایم میں واردات کی کوشش کی گئی لیکن عملے نے سی سی ٹی وی میں ملزم کو پہچان کر پولیس کو اطلاع کر دی جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔
چوری کے دوران ملزم نے کیمرے میں دیکھ کر منہ چڑایا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔
بعد ازاں یہ خبر آئی کہ ملزم صلاح الدین کا پولیس حراست میں انتقال ہوگیا ہے۔ پولیس نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ ملزم صلاح الدین کی اچانک طبیعت خراب ہوئی اور وہ حوالات میں عجیب حرکتیں کرنے لگا جس پر اسے اسپتال منتقل کیا گیا۔
پولیس حکام نے دعویٰ کیا کہ ملزم طبیعت خراب ہونے کے باعث اسپتال میں انتقال کر گیا۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر متضاد اطلاعات گردش کررہی ہیں۔ صلاح الدین کی موت پولیس تشدد سے ہونے کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے جبکہ متعدد تصویریں بھی زیر گردش ہیں۔
صلاح الدین کی پولیس اسٹیشن میں گفتگو کی ایک مبینہ ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں صلاح الدین خود سے بات کرنے والے مبینہ پولیس افسر سے کہہ رہا ہے کہ 'ایک بات پوچھوں۔ مارو گے تو نہیں،،، آپ لوگوں نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟'
صلاح الدین کی منہ چڑاتی تصویر اور مذکورہ جملہ سوشل میڈیا پر زبان زد عام ہوگیا ہے اور لوگ صلاح الدین کے معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔