Time 09 ستمبر ، 2019
پاکستان

قیدی جیلر کی نہیں سن رہا

ہم نے اسے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ اُس پر شک تھا کہ وہ اپنے دشمن کے ساتھ خفیہ بات چیت کر رہا ہے۔ کئی سال قید میں رکھنے کے بعد ایک دن ہم نے اُسے رہا کر دیا اور کہا کہ جائو اور جا کر دشمن سے بات چیت کرو۔ وہ گرفتار بھی کسی اور کی مرضی سے ہوا اور رہا بھی کسی اور کی مرضی سے ہوا۔ رہا ہوتے ہی وہ دشمن کے ساتھ بات چیت میں شامل ہو گیا اور ہم نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ یہ مذاکرات ہماری وجہ سے شروع ہوئے ہیں اور ہم ان مذاکرات کی کامیابی میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اچانک یہ مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہو گئے ہیں اور اگر یہ مذاکرات دوبارہ شروع نہ ہوئے تو ناکامی کا الزام ہم پر بھی آئے گا اور بات صرف الزام تک نہیں رہے گی آگے بھی جا سکتی ہے۔

آج ہم بڑی بے بسی کے ساتھ ایک ایسے شخص سے امید لگائے بیٹھے ہیں جو کچھ ماہ پہلے تک ہمارا قیدی تھا۔ اس قیدی کا نام ملّا عبدالغنی برادر ہے جو دوحہ میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے والے افغان وفد کی سربراہی کر رہے تھے۔

ملّا برادر کو 2010ء میں کراچی کے قریب سے گرفتار کیا گیا تو امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ وہ اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ خفیہ بات چیت کر رہے تھے۔ کرزئی نے ملّا برادر کے ساتھ رابطہ کیا تھا اور پیشکش کی تھی کہ وہ لویہ جرگہ میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ 

اُس وقت پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ بہت برا لگا کہ افغان طالبان اور کرزئی نے براہِ راست ایک دوسرے سے رابطے شروع کر دیئے ہیں اور جب 8 فروری 2010ء کو ملّا عبدالغنی برادر کو گرفتار کیا گیا تو بعض مغربی اخبارات نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ گرفتاری امریکہ کی فراہم کردہ اطلاع پر ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ قریب تھی لیکن وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے ملّا برادر کو گرفتار کر لیا تاکہ افغان امن مذاکرات میں اُن کی اہمیت بڑھ جائے اور اس اہمیت کی وجہ سے اُنہیں توسیع مل جائے۔ جنرل کیانی کو توسیع تو مل گئی لیکن افغان امن عمل آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ قیدی بننے کے بعد ملّا برادر نے اپنے ’’جیلر‘‘ کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔

گزشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مقرر کیا تاکہ وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کر سکیں۔ زلمے خلیل زاد نے موقف اختیار کیا کہ امن مذاکرات کا آغاز ملّا برادر کی رہائی کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا پاکستان سے ملّا برادر کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اکتوبر 2018ء میں پاکستان نے ملّا برادر کو رہا کیا تو افغان طالبان نے فوری طور پر اُنہیں اپنے مذاکراتی وفد کا سربراہ بنا دیا۔

مذاکرات کا آغاز ہوا تو افغانستان کے زمینی حقائق سے بے خبر کچھ ’’ماہرین افغان امور‘‘ نے ان مذاکرات کی کامیابی کے قبل از وقت دعوے شروع کر دیئے بلکہ اس کامیابی کے کریڈٹ کے لئے بھاگ دوڑ بھی شروع ہو گئی۔ اس دوران دوحہ میں افغان طالبان کے مذاکراتی وفد سے جب بھی رابطہ ہوا تو وہ بار بار ایک ہی بات کہتے کہ یہ مذاکرات ہماری نہیں بلکہ ٹرمپ کی ضرورت ہیں، ہم امن چاہتے ہیں لیکن امن کے نام پر سرنڈر نہیں کریں گے۔

مذاکرات کے دوران انہیں بار بار پاکستان بلایا جاتا رہا۔ وہ لیت و لعل سے کام لیتے رہے تاکہ ان پر یہ الزام نہ لگے کہ وہ پاکستان کا ’’بغل بچہ‘‘ ہیں لیکن پاکستان میں بھی کچھ لوگ اُن کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنی اہمیت بڑھانا چاہتے تھے۔

آخرکار طالبان نے اپنے کچھ نمائندے پاکستان بھجوانے پر آمادگی ظاہر کی تو افغان صدر اشرف غنی سیخ پا ہو گئے اور انہوں نے زلمے خلیل زاد کے ذریعہ پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر عمران خان نے طالبان سے ملاقات کی تو میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو اپنے جہاز میں بٹھا کر مودی کے پاس لے جاؤں گا۔ افغان طالبان کو امید نہیں تھی کہ پاکستان اشرف غنی کی دھمکی میں آجائے گا لیکن پاکستان دھمکی میں آ گیا اور طالبان سے کہا گیا کہ وہ اپنا دورہ کچھ دن کیلئے ملتوی کر دیں۔

زلمے خلیل زاد کا خیال تھا کہ اگست کے پہلے ہفتے میں امن معاہدہ ہو جائے گا لیکن کوئی بریک تھرو نہ ہو سکا۔ افغان طالبان اپنی سرزمین سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے اور زلمے خلیل زاد ان سے غیرمشروط سیز فائر کا مطالبہ کرتا رہا۔ 

اس دوران افغان نیشنل آرمی کے کچھ اعلیٰ افسران نے طالبان سے رابطہ کیا اور کہا کہ امن معاہدے کے فوراً بعد وہ اپنے جوانوں کے ساتھ طالبان کی حمایت کا اعلان کر دیں گے۔ جب اشرف غنی کو یہ پتا چلا تو انہوں نے ٹرمپ کو پیغام بھجوایا کہ امن معاہدہ آپ کا سرنڈر بننے والا ہے۔ 9ستمبر کو کیمپ ڈیوڈ میں طالبان اور امریکی حکام امن معاہدہ فائنل کرنا چاہتے تھے تاکہ گیارہ ستمبر کو ٹرمپ یہ دعویٰ کر سکے کہ اُس نے افغانستان میں امن کرا دیا لیکن طالبان نے امریکی شرائط ماننے سے انکار کر دیا لہٰذا ٹرمپ نے مذاکرات معطل کر دیئے۔

پچھلے دنوں ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں جو رویہ تبدیل کیا تھا اُس کی اصل وجہ یہی تھی کہ ٹرمپ کو افغانستان میں اپنی کامیابی نظر آرہی تھی لیکن طالبان نے امن مذاکرات کے نام پر سرنڈر سے انکار کر دیا۔ اب ٹرمپ بھی مشکل میں ہے اور پاکستان بھی مشکل میں ہے لیکن ملّا برادر نے ٹرمپ یا پاکستان کا نہیں بلکہ اپنی قوم کا مفاد دیکھنا ہے وہ اپنی قوم کی سنے گا اُن کی نہیں جو اُسے جیل میں ڈال کر غرور کیا کرتے تھے۔

مزید خبریں :