11 ستمبر ، 2019
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کیلئے احتساب کےعمل میں یکطرفہ جھکاؤ کا تاثر تباہ کن ہے، اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ احتساب کے عمل کی ساکھ متاثرنہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ شہریوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ایک اچھا عمل ہے لیکن غیرجانبداری کے بغیر یہ اقدام معاشرے کیلئے زیادہ مہلک ہوگا۔
نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ قلیل المدتی سیاسی فائدے کیلئے آئینی حقوق پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، جمہوریت میں دور اندیشی اور برداشت لازمی ہے، اختلاف اور برداشت کے بغیر جبر کا نظام ہوتا ہے، ماضی میں ہم نے دیکھا کہ اس کےخطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دائر کریں جسے سن کر فیصلہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اپنی تقریر میں کہہ چکا ہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گاجو کسی کے مطالبے پرلیا گیا وہ سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا، جب ضروری ہوا یہ عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔
آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیوزم میں دلچسپی نہ لینے پرخوش نہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ بخوبی آگاہ ہوں سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیوزم میں دلچسپی نہ لینے پرخوش نہیں، سوسائٹی کا وہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹیوزم پر تنقید کرتا تھا، معاشرے کا وہ طبقہ چند لوگوں کے مطالبے پر سوموٹو لینے کوسراہتا ہے، جوڈیشل ایکٹیوزم کی بجائے سپریم کورٹ عملی فعال جوڈیشلزم کو بڑھا رہی ہے، اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ازخودنوٹس پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ ہےاور کم نقصان دہ ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بتایا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 18 لاکھ سے زیادہ تھی، لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق اب ان کی تعداد کم ہوکر 17 لاکھ سے کچھ اوپر ہے، گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 مقدمات کا اندراج ہوا اور عدالت عظمیٰ نے 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے۔
ازخودنوٹس کے استعمال سے متعلق آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک مسودہ تیار کرلیا جائے گا
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ازخودنوٹس کے استعمال سے متعلق آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک مسودہ تیار کرلیا جائے گا، اس معاملے کو بھی ایک دفعہ میں ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہےکہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کرے، سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی، صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی، کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور بااختیارہے، صدرمملکت کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر کونسل اپنی کارروائی کررہی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور چیرمین اپنے حلف پر قائم ہیں، کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی، قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے۔
اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، چیف جسٹس
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے اور بداعتمادی سے پیدا ہونے والی بےچینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم بطور ادارہ اس تاثر کو کہ ملک میں جاری احتساب سیاسی انجنیئرنگ ہے بہت خطرناک سمجھ رہے ہیں، اس تاثر کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔