دنیا
Time 12 ستمبر ، 2019

سعودی دارالحکومت میں بغیر عبایہ گھومنے والی خاتون موضوع بحث

33 سالہ مشاعل الجلود ان گنی چنی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے عوامی مقامات پر عبایہ پہننا ترک کردیا ہے— فوٹو: اے ایف پی

سعودی عرب میں ان دنوں دارالحکومت ریاض میں بغیر عبایہ گھومنے والی خاتون موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے مطابق 33 سالہ مشاعل الجلود ان گنی چنی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے عوامی مقامات پر عبایہ پہننا ترک کردیا ہے۔

حالیہ دنوں میں مشاعل کی ایسی ہی کچھ تصویریں وائرل ہوئی ہیں جس میں انہیں نارنجی جیکٹ اور سفید چست پاجامہ پہنے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

33 سالہ مشاعل، ریاض میں جہاں کہیں سے بھی گزرتی ہیں آس پاس موجود مرد تو مرد عورتیں بھی انہیں حیرت سے دیکھتی ہیں اور پھر سرگوشیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

مشاعل نے بتایا کہ وہ گزشتہ چند عرصے سے دفتر کے علاوہ ہر جگہ بغیر عبایہ کے ہی سفر کررہی ہیں، کام کی جگہ پر وہ مجبوراً عبایہ پہنتی ہیں ورنہ انہیں نوکری سے نکالے جانے کا ڈر ہے۔

مشاعل، ریاض میں جہاں کہیں سے بھی گزرتی ہیں آس پاس موجود مرد تو مرد عورتیں بھی انہیں حیرت سے دیکھتی ہیں اور پھر سرگوشیاں شروع ہوجاتی ہیں— فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے میں ریاض کے ایک شاپنگ مال میں گئی اور مجھے دیکھتے ہی لوگوں نے چہ مگوئیاں شروع کردیں۔ برقعہ پہنی چند خواتین نے مجھ سے یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا آپ کو مشہور شخصیت ہیں؟

مشاعل نے بتایا کہ میں نے خواتین کو بتایا کہ میں کوئی معروف شخصیت نہیں بلکہ ایک عام سی سعودی خاتون ہیں۔

برقعہ پہنی چند خواتین نے مجھ سے یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا آپ کو مشہور شخصیت ہیں؟ مشاعل — فوٹو: اے ایف پی

مشاعل نے کہا کہ ایک بار وہ ریاض کی سپرمارکیٹ گئیں جہاں موجود ایک برقعہ پوش خاتون نے انہیں دھمکی دی کہ وہ میرے عبایہ نہ پہننے کی شکایت پولیس سے کریں گی۔

مشاعل ان چند سعودی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے حالیہ مہینوں میں عبایہ پہننا ترک کردیا ہے۔ 25 سالہ سماجی کارکن مناہل العتیبی بھی ان میں سے ایک ہیں۔

مناہل کہتی ہیں کہ وہ چار ماہ سے ریاض میں بغیر عبایہ کے رہ رہی ہیں، سڑکوں پر چہل قدمی کرتی ہیں اور ریسٹورانٹ میں کھانا کھاتی ہیں۔

25 سالہ سماجی کارکن مناہل العتیبی بھی ان خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے عبایہ ترک کردیا ہے— فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا ہے کہ 'میں چاہتی ہوں کہ میں جیسے چاہوں رہوں، بغیر کسی پابندی کے، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مجھے ایسا کچھ پہننے پر مجبور کرے جو مجھے پسند نہیں'۔

خیال رہے کہ سعودی عرب میں کئی دہائیوں سے خواتین کے لیے عبایہ پہننا لازمی ہے اور یہ پابندی غیر مسلم خواتین پر بھی لاگو ہے اور اس پر عمل سعودی مذہبی پولیس کرواتی ہے۔

مناہل کہتی ہیں کہ وہ چار ماہ سے ریاض میں بغیر عبایہ کے رہ رہی ہیں، سڑکوں پر چہل قدمی کرتی ہیں اور ریسٹورانٹ میں کھانا کھاتی ہیں— فوٹو: اے ایف پی

مشاعل کہتی ہیں کہ اس حوالے سے واضح قانون نہیں ہے، مجھے خطرہ ہوسکتا ہے، مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے مجھ پر حملہ ہوسکتا ہے کیوں کہ میں بغیر عبایہ گھوم رہی ہوں۔

مشاعل کا کہنا ہے کہ رواں برس جولائی میں انہیں ایک مال میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے عبایہ نہیں پہنا تھا۔ مشاعل کے مطابق انہوں نے گارڈز کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا وہ انٹرویو بھی موبائل پر دکھایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ خواتین کیلئے ضروری ہے کہ وہ مناسب باعزت لباس زیب تن کریں، ضروری نہیں کہ عبایہ پہنیں لیکن گارڈز نہیں مانے اور انہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔

مشاعل کا کہنا ہے کہ رواں برس جولائی میں انہیں ایک مال میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے عبایہ نہیں پہنا تھا— فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے یہ ویڈیو ٹوئٹر پر ڈالی جہاں مال انتظامیہ نے جواب دیا کہ وہ عوامی اقدار کی دھجیاں اڑانے والوں کو داخلے کی اجازت نہیں دیں گے۔

سعودی شاہی خاندان کے ایک فرد نے بھی مشاعل کو سستی شہرت کی خواہاں قرار دیا تھا اور انہیں سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

مشاعل کا کہنا ہے کہ عبایہ کا تعلق مذہب سے نہیں، اگر ایسا ہوتا تو سعودی خواتین ملک سے باہر جاتے ہی اسے اتار نہ پھینکتیں— فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو روشن خیال سمجھا جاتا ہے اور وہ تیزی سے خواتین پر عائد متعدد پابندیاں ختم کررہے ہیں۔

حال ہی میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی، بغیر محرم گھر سے باہر نکلنے اور بیرون ملک سفر کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔

مشاعل کا کہنا ہے کہ عبایہ کا تعلق مذہب سے نہیں، اگر ایسا ہوتا تو سعودی خواتین ملک سے باہر جاتے ہی اسے اتار نہ پھینکتیں۔

مزید خبریں :