12 ستمبر ، 2019
مقبوضہ کشميرکی صورتحال پر چار امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مداخلت کیلئے خط لکھ دیا۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف یہ خط سینیٹرز کرس سین ہولن، لنزے گراہم، بن یامین ایل کارڈن اور ٹاڈ ینگ لکھا ہے۔
خط میں چاروں سینیٹرز نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سینیٹرز نے صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مواصلاتی نظام کی بحالی، کرفیو اور لاک ڈاؤن کے خاتمے کیلئے مودی سے ملاقات کریں۔
سینیٹرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والے انسانی المیے کے خاتمے کیلئے فوری ایکشن لیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال خراب اور وہاں کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لہٰذا ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ سروس کی مکمل بحالی کا مطالبہ کریں اور ساتھ ہی کرفیو ، لاک ڈاؤن ختم کرنے اور گرفتار کشمیریوں کو رہا کرنے پر زور دیں۔
سینیٹرز کا کہنا تھا کہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان جاری اس مسئلے کو حل کرنے میں امریکا تعمیری کردار ادا کرسکتا ہے۔
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔