Time 14 ستمبر ، 2019
پاکستان

ویڈیو اسکینڈل : احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو او ایس ڈی بنا دیا گیا

سابق جج کو او ایس ڈی بنائے جانے کا نوٹیفکیشن رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے جاری کیا — فوٹو: فائل 

لاہور: وڈیو اسکینڈل کی وجہ سے ہٹائے گئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو  آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا دیا گیا۔

رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے ارشد ملک کو او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ سابق جج کو او ایس ڈی بنائے جانے کا نوٹیفکیشن رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے جاری کیا۔

یاد رہے کہ 26 اگست کو لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے ویڈیو اسکینڈل پر جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کرنے کے لیے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔

 اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں ارشد ملک کیس کا فیصلہ 

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے 20 اگست کو محفوظ کیا تھا جسے چیف جسٹس نے 23 اگست کو سنایا۔

25 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے، بالخصوص متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے، معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے، ارشد ملک کو اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔

جج ویڈیو اسکینڈل میں نامزد ملزمان بری

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جج ویڈیو اسکینڈل میں 3 ملزمان کو گرفتار کیا تھا جن پر مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ 

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس کے بعد عدالت نے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل میں نامزد تین ملزمان کو عدم شواہد کی بناء پر بری کیا۔

 جج ویڈیو اسکینڈل کے تین ملزمان ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور غلام جیلانی شامل تھے۔

مزید خبریں :