Time 16 ستمبر ، 2019
دنیا

سعودی آئل فیلڈز پر حملے میں ایرانی ہتھیار استعمال ہوا، عرب عسکری اتحاد

یہ دہشت گردانہ حملے یمن کی سرزمین سے نہیں ہوئے: ترجمان عرب عسکری اتحاد کرنل ترکی المالکی  — فوٹو: فائل 

یمن کے معاملے پر سعودی عرب کی سربراہی میں بنائے گئے عرب عسکری اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی دو آئل فیلڈز پر ہونے والے حملے میں ایرانی ہتھیار کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔

گزشتہ دنوں سعودی عرب کی دو بڑی آئل فیلڈز پر ڈرون حملے کیے گئے تھے جن میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ عبقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں۔

ان حملوں کے بعد مشرق وسطی میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جبکہ امریکا نے براہ راست ان حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا ہے تاہم ایران نے اِن الزامات کی تردید کی ہے۔

اب یمن کے معاملے پر سعودی عرب کی سربراہی میں بنائے گئے عرب عسکری اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے سعودی آئل فیلڈز پر حملوں میں ایرانی ہتھیار کے استعمال کا انکشاف کیا ہے۔

کرنل ترکی المالکی کا جدہ میں پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئل فیلڈز پر ڈرون حملوں میں ایرانی ہتھیار استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردانہ حملے یمن کی سرزمین سے نہیں ہوئے جس کی ذمہ داری حوثیوں نے قبول کی، مزید تحقیقات کی جارہی ہیں کہ یہ حملہ کہاں سے کیا گیا۔

ترکی المالکی نے کہا کہ جلد یہ بات میڈیا کے سامنے لائی جائے گی کہ ڈرونز کو کہاں سے حملے کیلئے بھیجا گیا۔ 

حوثی باغیوں کی دوبارہ آئل تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی

دوسری جانب حوثی باغیوں نے دوبارہ سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر حملے کی دھمکی دی ہے۔ 

حوثی ملیشیا نے دھمکی دی کہ سعودی عرب میں آرامکو اور غیر ملکیوں کو خبر دار کررہے ہیں کہ دوبارہ حملوں کیلئے تیار رہیں۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر حملہ کیا گیا، یقین کرنے کی وجہ ہے کہ ہم مجرم کو جانتے ہیں، ہم نشانہ اور ہتھیار بند ہیں لیکن یہ تصدیق پر منحصر ہے، سعودی عرب کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ کسے اس حملے کا مجرم سمجھتے ہیں اور کن شرائط پر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

خیال رہے کہ مارچ 2015 میں سعودی عرب کی سربراہی میں 9 ممالک کا عسکری اتحاد قائم ہوا تھا جس نے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی جس کا مقصد عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو بحال کرنا تھا جسے حوثی باغیوں نے 2014 کے آخر میں اقتدار سے ہٹادیا تھا۔

اس کے بعد سے حوثی باغی یمنی حکومت اور عرب عسکری اتحاد کیخلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور رواں برس انہوں نے مختلف سعودی شہروں پر ڈرون اور میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

یمن تنازع کو خطے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار سمجھا جاتا ہے کیوں کہ حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔

مزید خبریں :