22 ستمبر ، 2019
ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ خلیج فارس میں غیرملکی فوج کی موجودگی خطے کیلئے مسائل اور عدم تحفظ پیدا کرسکتی ہے۔
گزشتہ دنوں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکا نے خطے میں مزید فوجیوں کی تعیناتی کا حکم دیا تھا۔
اس پر پاسداران انقلاب کے سربراہ میجرجنرل حسین سلامی نے ردعمل کا اظہار کیا تھا تاہم اب ایرانی صدر نے بھی اس حوالے سے بیان دیا ہے۔
سالانہ ملٹری پریڈ کے موقع پر ایرانی صدر کا خطاب میں کہنا تھا کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی سے خلیج فارس میں عدم تحفظ کی صورتحال ہے جو ہمارے لوگوں، خطے کیلئے مسائل اور عدم تحفظ پیدا کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کسی کو بھی اپنی سرحد کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران امن کیلئے علاقائی تعاون کا منصوبہ اقوام متحدہ میں پیش کرے گا جو خلیج فارس، آبنائے ہرمز اور بحیرہ عمان کی سلامتی سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں غیرملکی فوج کی موجودگی، تیل، عالمی توانائی اور شپنگ کی سیکیورٹی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے، کیوں کہ امریکی فوج جہاں گئی وہاں بدامنی اورعدم تحفظ پھیلایا۔
یاد رہے کہ 14 ستمبر 2019 کو سعودی عرب کی دو بڑی آئل فیلڈز پر حملے کیے گئے تھے جن میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ عبقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری یمن میں حکومت اور عرب عکسری اتحاد کے خلاف برسرپیکار حوثی باغیوں نے قبول کی تاہم امریکی صدر نے ٹوئٹس میں اشارہ دیا کہ امریکا جانتا ہے کہ یہ حملے کس نے کیے لیکن وہ سعودی عرب کے جواب کا انتظار کررہا ہے کہ وہ کسے ذمہ دار سمجھتا ہے۔
اس کے بعد عرب عسکری اتحاد کے ترجمان کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے یمن سے نہیں کہیں اور سے ہوئے اور اس میں ایرانی ہتھیار استعمال ہوئے۔
ایک امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے ایران سے ہوئے اور اس میں کروز میزائل استعمال کیے گئے۔
اس کے بعد 18 ستمبر کو سعودی عرب کی جانب سے تیل تنصیبات پر حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے شواہد پیش کیے گئے۔
سعودی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا کہ حملوں میں 18 ڈرونز اور 7 کروز میزائل جس سمت سے استعمال کیے گئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حملے یمن سے نہیں ہوئے۔
کرنل ترکی المالکی نے بتایا کہ حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے ملنے کے جانچ سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ حملے شمال کی جانب سے کیے گئے اور بلاشبہ اسے ایران نے 'اسپانسر' کیا۔
21 ستمبر کو امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی درخواست پر مزید فوجی دستے اور سازو سامان بھیجنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکا نے ایران کے مرکزی بینک اور دو مالیاتی اداروں پر پابندیاں عائد کیں جنہیں واشنگٹن کی جانب سے تہران پر اب تک کی سب سے بڑی معاشی پابندیاں قرار دیا گیا۔
اس کے جواب میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جارحیت کرنے والے ملک کو تباہ کرنے کیلئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک نے بھی ایران پر حملہ کیا اسے ہی میدان جنگ بنادیں گے، ہم کسی بھی جارحیت کرنے والے ملک کا مسلسل تعاقب کریں گے اور اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وہ مکمل تباہ نہ ہوجائے لہٰذا محتاط رہیں اور غلطی نہ کریں۔
اس کے بعد سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ عادل الجبیر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تیل تنصیبات پر حملوں کی تحقیقات جاری ہیں، اگر ایران ملوث نکلا تو جوابی کارروائی کریں گے۔
اس تمام تناظر میں ایران نے مؤقف اپنایا کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ یمن میں عرب عسکری اتحاد کی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔