Time 27 ستمبر ، 2019
دنیا

جمال خاشقجی کا قتل: امریکی صحافی کا سعودی ولی عہد سے متعلق بڑا دعویٰ

فائل فوٹو

ایک امریکی صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی ذمے داری قبول کی ہے کیونکہ یہ اُن کے اقتدار کےدوران ہوا تھا۔

یہ دعویٰ امریکی چینل پی بی ایس کے صحافی مارٹن اسمتھ نے ایک دستاویزی فلم کے پری ویو میں کیا ہے۔

ان کےمطابق سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ میں صحافی جمال خاشقجی کےقتل کی ذمےداری قبول کرتاہوں کیونکہ یہ میرے اقتدار کے دوران ہوا۔

اسمتھ کے مطابق ان کی سعودی ولی عہد سے ملاقات دسمبر 2018 میں ریاض کے قریب ایک الیکٹرک کار ریس کےموقع پر ہوئی، ریسٹورنٹ میں ملاقات کے دوران سعودی ولی عہد نے کہا کہ انہیں جمال خاشقجی کےقتل کی منصوبہ بندی کا علم نہیں تھا۔ جب ولی عہد سے پوچھا گیا کہ ان کے علم میں لائے بغیر یہ کیسے ہوسکتا تھا تو انہوں نےکہا کہ ان کےپاس 2 کروڑ لوگ اور 30 لاکھ سرکاری ملازمین ہیں، وہ مختلف امور کو دیکھتے ہیں۔

اس سوال پرکہ کیا قاتل سرکاری جیٹ طیارہ بھی  لے جاسکتے تھے؟ شہزادہ محمد نے کہا کہ میرے پاس حکام اور وزراء ہیں جو معاملات کو دیکھتےہیں۔ ان کے پاس ایسا کرنےکا اختیار ہے۔

خبرایجنسی کےمطابق دستاویزی فلم جمال خاشقجی کی پہلی برسی کی مناسبت سےتیارکی گئی جو یکم اکتوبر کوامریکی چینل پی بی ایس پر نشر کی جائےگی۔

جمال خاشقجی کے قتل کا پس منظر

واضح رہےکہ سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی آخری مرتبہ 2 اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے باہر دیکھےگئے تھے، وہ اپنی شادی کی دستاویزات کے سلسلے میں قونصل خانہ گئے تھے جہاں انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا اور لاش کے ٹکڑے کرکے ٹھکانےلگادیا گیا، ان کےاعضاء آج تک نہیں مل سکے۔

واقعےپر سخت عالمی ردعمل کے بعد سعودی حکام نےکہا تھا کہ قتل میں سعودی ولی عہد کا ہاتھ نہیں بلکہ ایک خفیہ دستہ ملوث ہے، سعودی پراسیکیوٹر کے مطابق قتل کا حکم اس وقت کےنائب انٹیلی جنس چیف نےدیا تھا جبکہ سعودی ولی عہد کے شاہی مشیرسعود القحطانی نے خفیہ دستےکو آپریشن سے پہلے خاشقجی کی سرگرمیوں کےبارےمیں بریفنگ دی۔

خفیہ آپریشن میں ملوث 11 اہلکاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہےجن میں 5 کو سزائے موت کی سفارش کی گئی ہے تاہم اقوام متحدہ نے گرفتار افراد کے خلاف خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قراردیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید خبریں :