08 اکتوبر ، 2019
شام میں کرد ملیشیا کے خلاف ترکی کے آپریشن کے اعلان کے بعد امریکی فوج کا ترک سرحد سے انحلاء شروع ہوگیا جب کہ ترکی کی جانب سے آپریشن کا آغاز کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں کردوں کے خلاف فوجی آپریشن کسی بھی وقت شروع کیے جانے کا امکان ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ شام میں کرد ملیشیا کیخلاف آپریشن کسی بھی لمحے شروع ہوسکتاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترک فوج تیارہے ’میں ہمیشہ ایک محاورہ کہتا ہوں کہ ہم کسی بھی رات خبردار کیے بغیر آجائیں گے‘۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ ان دہشت گرد گروپوں کےخطرات برداشت کرنےکااب کوئی سوال پیدانہیں ہوتا۔
ترک وزیرخارجہ نے بھی سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا ہے کہ وہ ملکی سلامتی اوربقا کیلئے خطے سےدہشت گردوں کےخاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شام میں جنگ کے آغاز سے ہی اس کی علاقائی سالمیت کی حمایت کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے، شام میں سکون ،امن واستحکام کیلئے تعاون جاری رکھاجائےگا۔
دوسری جانب شام میں ترکی کی سرحد کے قریب موجود امریکی افواج کا انخلا شروع ہوگیا ہے تاہم امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ دیگر علاقوں میں موجود امریکی افواج بدستور وہاں موجود رہیں گی۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا شام میں ترکی کے آپریشن کی حمایت نہیں کرتا، ترک کارروائی سے خطے میں عدم استحکام بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ترجمان پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا ترکی پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہم اس آپریشن کے حق میں نہیں ہیں، شمالی شام میں ترک کارروائی سے خطے اور خطے کے باہر عدم استحکام پیدا ہوگا۔
پینٹاگون کے مطابق نیٹو اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں ترکی پر دباؤ جاری رکھیں گے۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ امریکا کی مسلح افواج آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی نہ ہی اس کا حصہ بنیں گی۔
یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو کے بعد سامنے آیا تھا۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکی افواج آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی نہ ہی اس کا حصہ بنیں گی اور داعش کو اس علاقے میں شکست دینے کے بعد اب مزید یہاں نہیں رہیں گی۔
شمالی شام میں ترکی کے متوقع آپریشن کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ہیومینٹیرین کوآرڈینٹر برائےشام کا کہنا ہے کہ نہیں جانتے کہ شام میں کیا ہونے جارہاہے،آپریشن کےنتائج کےحوالےسےبہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔
واضح رہے کہ ترکی شام کے شمالی علاقے کو محفوظ بنا کرترکی میں موجود 20 لاکھ شامی مہاجرین کو ٹھہرانا چاہتا ہے۔
گذشتہ دنوں اے کے پارٹی کی سالانہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ترکی کا مقصد دریائے فرات کے مشرق کو امن کا سرچشمہ بناکر وہاں مہاجرین کو بسانا ہے۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی تیاریاں کرلی ہیں اور آپریشن کے منصوبے کو بھی مکمل کرکے ضروری ہدایات جاری کر دی ہیں، اب ترکی بہت جلد زمینی اور فضائی کارروائی کرے گا۔
خیال رہے کہ کرد ملیشیا آزاد ملک کے قیام کیلئے سرگرم ہے، عراق میں کردستان کے نام سے ایک خودمختار علاقہ کردوں کو دیا گیا ہے تاہم وہ شام اور ترکی کے کچھ علاقوں کو بھی کردستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ترکی کرد ملیشیا کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔
2014 میں امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔
امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کردش ملیشیا اور جنگجوؤں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔
20 دسمبر 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں داعش کو شکست دینے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔