پاکستان
Time 08 اکتوبر ، 2019

میں نے ایسا کیوں نہیں کیا!

تحریر: شاہد خاقان عباسی 

سابق وزیراعظم پاکستان

میں تین دہائی قبل اپنے آپ سے کیا ہوا وعدہ توڑ رہا ہوں ،کہ کسی بھی پارلیمنٹیرز کو صرف پارلیمنٹ ہاؤس کے فلور پر بات کرنے چاہئے نہ کہ اخبارات کے کالم کےذریعے، بدقسمتی سے ہماری پارلیمنٹ کے موجودہ نگراں جن کا بنیادی کام پارلیمنٹ میں موجود رہ کر آئینی تقاضے پورا کرنا ہےوہ اپنے صوابدیدی طور پر پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہوتے اس لیے میں اپنی اہم بات اخبار کے ذریعے کہہ رہا ہوں۔

یہ ایک نہایت محنت اور تندہی سے کام کرنے والی حکومت ہے جس کے ارکان خواتین و مرد ہفتے کے ساتوں دن اخبارات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہر مسئلے پر انڈوں سے بکری تک ، جیل ریفارمز سے غربت مٹانے تک، پولیو سے ڈینگی تک اور افغانستان سے کشمیر تک دن رات انتھک کام کرنے میں کوشاں ہیں جس کے بعد ٹویٹس اور پریس ریلیزجاری ہورہی ہے، ہر ہفتے ایک نیا مسئلہ اجاگر کیا جاتا ہے ان میں سے چند ایک ایسے ہیں جو سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ پہلے تھا ہی نہیں۔

گزشتہ سال میرے لیے تعلیمی تجربے کے طور پر گزرا،اب چونکہ ہم نے اپنی معیشت کی منیجمنٹ آئی ایم ایف کے سپرد کردی ہےتو اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اور کیا مسائل ہیں۔

یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ کرپشن و بدعنوانی ایک مسئلہ ہے، مگر ایسا لگتا ہے جیسے مارچ 2008 سے لیکر اب تک صرف کرپشن ہی ہمارا مسئلہ ہے اور اس کا پتہ چلانے کےلیے بڑی شدت سے محنت کرنی پڑرہی ہے، ہر چیلنج ایک موقع دیتا ہے، جب ہم کرپشن کے خلاف سخت جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، اب اس کے علاوہ دوسرے مسائل کی طرف دیکھتے ہیں تو مزید پریس ریلیز اور ٹویٹس کی ضرورت پڑتی ہے، اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ کام نہیں بن پارہااور پتہ نہیں کہ کس بات کی ریفارمز کس طرح ہوسکتی ہے۔

تو پھر 18 ویں ترمیم کے گرد اور این ایف سی ایوار ڈبھی خاصہ پیچیدہ ہے، جب ہم کچھ بھی نہیں کر پارہے تو پتہ پھر یہ ہوتا ہے کہ بغیر جمہوری نظام کی ناکامی کے صدارتی نظام جانے کی طرف دیکھتے ہیں، یہ تمام صورتحال ہمیں اسٹیٹ اونڈ انٹر پرائز (SOE)پر چھوڑ دیتے ہیں، یہ وہ بیماری ہےجیسے کسی کی ساس ضروری نہیں کہ وہ جان لیوا ہو مگر وقت برباد کرنے کے لیے کافی ہے، ایس او ای ایک دائمی مرض ہے، اگر آپ گزشتہ 35 سال میں سے کسی دن کا بھی اخبار اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے تمام کے تمام معاملات ایس او ای کےہی ہیں۔

اب تمام کی تمام مشینری دن رات ماہرین ان اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز کے پیچیدہ مسئلوں کے حل میں کوشاں ہیں مگر تمام کے تمام معاملات جوں کے توں ہیں یعنی اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائز دوسرے لفظوں میں ساس ، بالکل جوں کی توں ہے باوجود اس کےکہ ملک کے تمام ماہرین دن رات معاملات اور دائمی مسائل کے حل کے لیے سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔

اب آپ شائد پوچھیں گے کہ یہ ایس او ای ہےکیا ؟، بہت ہی جائز اور پختہ سوال ہے، جبکہ بہت سے دائمی مسائل ہم سالوں پہلے حل کرچکے ہیںاگر آپ ذرا سی کمانڈ ڈھیلی چھوڑیں گے تو 4 ایس او ای آپ کو نظر آئیں گے۔

بوسیدہ نظام، ائرلائنز ، ریلوے اور اسٹیل ملز، یہ چاروں کو جب کی بھی پہلو سے دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ قومی سلامتی کے مسائل ہیں، آج صرف خسارے قومی سلامتی کے معاملے ہیں، یہ ایس او ای ہر سال اور آج بھی500 ارب روپے کا خسارہ ہے، یہ وفاقی حکومت کے انتظامی امور چلانے کی لاگت سے بھی زیادہ ہے۔

اور یہ برابر ہے 3 ارب امریکی ڈالرز کےاب جبکہ ہم نےحقیقت میں روپے کی اصل قدر کا تعین کرلیا ہے تو یہ رقم برابر ہے 6 ارب امریکی ڈالروں کے جو ہم آئی ایم ایف سے لینے جارہے ہیں، آئندہ دو سالوں میں، 500 ارب روپےاس رقم کے برابر ہے جو ہم 6 ارب امریکی ڈالر ڈیپٹ سروسنگ اس سال بڑھے گا جس کی گارنٹی شرع نمو اور بے روزگاری کےخاتمے کے لیے۔

ہماری ٹویٹس اور پریس ریلیز کی جستجو منصوبوں کے حل کےلیے ہونی چاہئے،بد قسمتی سے محب وطن بہت سے مسئلوں میں گھرے ہوئے گروپ کے لیے حل اس وقت ہوگا جب مسئلے کا پتہ ہوگا، یہ ایس او ای کے مسائل نے ہم پر حملہ کیا ہوا ہے، ایک وقت میں ایک کام تمام جستجو اس پر اور کام ختم ، پرائیوٹائزیشن ، یہ بہت سے کام کرسکتی ہے مگر ہم شائد اس سے بچتے رہے ہیں،پاور سسٹم کو لیجئے، گردشی خساروں کا گڑھ، سادہ لفظوں میں گردشی قرضوں کا مطلب ہے اے ، نے بی سے لینا ہے۔

بی نے سی سے لینا ہے اور سی نے ڈی سے ، اب ڈی نے سی کو دینا ہے سی نے بی کو دینا ہے بی نے اے کو دینا ہے۔

یہ گردش ہے، مگر یہ گردشی قرضہ نہیں بلکہ مکمل خسارہ ہے، سادہ لفظوں میں یہ سمجھیں کہ ڈسکوز کو بجلی ’’x‘‘ روپے میں ملتی ہے مگر وہ صرف پیپکو/این ٹی ڈی سی /سی پی پی یا ان کو ادائیگی کرتے ہیں جن کے پاس X-Y روپے میں بجلی ہے ۔اس طرح Y سرکولر ڈیٹ یا وہ نقصان ہے جو حکومت کو اپنی جیب سے اداکرناپڑتاہے ۔

سردست ہم نام نہاد سرکولرڈیٹ کی مد میں روزانہ ایک ارب روپے نقصان کرنے پر خوش ہیں جس کا کچھ حصہ بجٹ میں فراہم کیا جاتاہے جبکہ باقی ماندہ 10کھرب روپے پاوراورپٹرولیم سیکٹر میں پھنسے ہوئے ہیں ۔

گردشی قرضوں کا واحد حل نجکاری ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں جو کہ ملٹی بلین ڈالر کی تجارتی کمپنیاں ہیں ان کے پاس اتنی تکنیکی مہارت ‘انتظامی استعداد اور سرمایہ نہیں کہ وہ ادارے کو مؤثر طریقے سے چلاسکیں جبکہ حکومت کی دخل اندازی، نیپراکی استعداد‘پیپرارولز کے نفاذ سے ان کے معاملات مزیدبگڑ جاتے ہیں ۔

مگر یہ سادہ سی نجکاری نہیں ہے ۔جدیداور مؤثر ریگولیٹری انوائرنمنٹ کا قیام اس کی کلید ہے‘موجودہ نیپرا ریگولیٹری وہ ماحول فراہم نہیں کررہی ‘کے ای ایس سی کے تجربے کو بطورماڈل استعمال کیا جاسکتاہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے ۔

اچھے پرانے وقتوں میں قومی ائرلائنز کافی منافع بخش ہوا کرتی تھیں مگر اس کے بعد مسابقت اور ڈی ریگولرائزیشن جیسی دو برائیاں آئیں جس نے اس کو انتہائی مسابقتی کاروبار بنادیا ۔منافع کی شرح اس حد تک گرگئی کہ کئی ائرلائنز نے جتنا کمایا نہیں اتنا گنوادیا ۔

ہماری قومی ائرلائن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔یہ بات یقینی ہے کہ ہماری قومی ائرلائن نقصان ہی اٹھائے گی ‘اگر ہم سالانہ 40ارب روپے نقصان کے متحمل ہوسکتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے ‘اگر نہیں تو پھر اس کی ایک روپے میں بھی نجکاری کردیں اور سالانہ چالیس ارب روپے کمائیں جو غربت میں کمی لیے استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔

ٹرینیں بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹ کا مؤثر ذریعہ ہیں ۔تصورکریں کہ برطانیہ میں ٹرینیں نہیں اور اب 1500کلومیٹر طول بلد کے ایک ملک کا تصورکریں جہاں 16کروڑ لوگ ایک ریلوے لائن پر رہ رہے ہوں اوروہاں ٹرینیں نہ ہوں ‘پاکستان ریلوے بھی ملک کو سالانہ چالیس ارب روپے سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے جو کہ قومی ائرلائن کے خسارے کے برابر ہے ‘اگر ہم اسی طرح ناقص منصوبہ بندی کے ذریعے ریلوے کو جدید بنانے پر کام کرتے رہے تو ہم سالانہ 100ارب کا نقصان کریں گے اور اگر توقع کے مطابق روپے کی قدر مزید گری تو یہ خسارہ 150ارب روپے تک بھی پہنچ سکتاہے ۔

ریلوے کو بھی بدانتظامی ‘تکنیکی مہارت کی کمی اور مالی کمزوری جیسی تینوں بیماریاں لاحق ہیں۔ اسٹیل ملزکو ختم کرنا ہی اس کا واحد حل ہے مگر اس میں ملازمین کا خیال رکھا جانا چاہئے کیونکہ ہمارے پاس کوئی سوشل سکیورٹی نیٹ نہیں ہے‘۔

اس ادارے میں ملازمین پر سالانہ 5ارب روپے خرچ ہوتے ہیں ‘ان ملازمین کو ریٹائرمنٹ تک تنخواہ ملتی رہنی چاہئے یا پھر ملازمت کی مدت اور تنخواہ کے حساب سے معاوضہ ملنا چاہئے ۔اسٹیل ملز کی اراضی جس کے بدقسمتی سے کئی دعویدار ہیں ،نیشنل اکنامک سکیورٹی کے طورپر کام آسکتی ہے‘۔

یہ ممکنہ طورپر پاکستان کی بہترین اراضی ہے جہاں تیار ڈھانچہ اور براہ ِراست بندرگاہ تک رسائی کی سہولت موجودہے ‘اس کو سی پیک کے تحت صنعتی زون کے طورپر استعمال کیا جاسکتاہے ‘۔

یہ سہل پسندانہ حل کے اقدامات نہیں ہیں ‘یہ محض سرکاری اداروں کو درپیش مسائل کا ایک سرسری خاکہ یا خلاصہ ہے ۔طویل اختتام ہفتہ پر آپ خود ان مسائل کا کوئی حل ڈھونڈلیں‘ ۔

اس بارے میں مجھ سے ایک سوال پوچھا جانا چاہئے کہ :’’جب آپ اقتدارمیں تھے تو آپ نے یہ اقدامات کیوں نہیں اٹھائے ؟‘‘۔اور میراجواب یہ ہوگا کہ :’’یہ سوال تب کیجئے گا جب میں سیاست سے ریٹائر ہو جاؤں ‘‘۔

مزید خبریں :