09 اکتوبر ، 2019
ایران نے شام میں ترکی کے ممکنہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ترکی شام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کےمطابق ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے ترک ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایران شام میں ترک ملٹری آپریشن کی مخالفت کرتاہے،ترکی شام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کااحترام کرے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ضرورت ،استحکام اور سلامتی کےقیام پر بھی زور دیا۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کیلئے سب سے بہترین راستہ ’آدنا معاہدہ‘ ہے۔
واضح رہے ترکی نے 1998 میں شام کو دھمکی دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر شام نے اپنی سرزمین سے ترکی کے کرد باغی رہنما عبداللہ اوجلان کو بے دخل اور ترک کرد رہنماؤں کی مدد کرنا بند نہیں کی تو ترکی فوجی کارروائی کرے گا۔
اس دھمکی کے بعد ترکی کے اس وقت کے صدر سلیمان دیمرل اور سابق شامی صدر حافظ الاسد کے درمیان ترکی کے شہر آدنا میں معاہدہ طے پایا تھا جس میں دونوں ممالک نے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنے پر اتفاق کیا تھا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولوت چاوش اوغلو کا کہنا تھا کہ شمالی شام میں ترک فوج کا آپریشن عارضی ہوگا۔
واضح رہے کہ ترکی شام کے شمالی علاقے کو محفوظ بنا کرترکی میں موجود 20 لاکھ شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔
اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے‘ کو ترکی دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اسے علیحدگی پسند اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔
2014 میں امریکی صدر براک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔
امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کُردش ملیشیا اور جنگجوؤں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کے ترکی کے فیصلے کے بعد امریکا نے اپنی فوجیں شام ترک سرحدی علاقے سے پیچھے ہٹانےکا اعلان کیا تھا جس پر کُرد ملیشیا نے امریکا پر ’پِیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کا الزام عائد کیاتھا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں کردوں کے خلاف فوجی آپریشن کسی بھی وقت شروع کیے جانے کا امکان ہے اور امریکی فوج کا ترک سرحد سے انحلاء شروع ہوگیا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا شام میں ترکی کے آپریشن کی حمایت نہیں کرتا، ترک کارروائی سے خطے میں عدم استحکام بڑھنے کا خدشہ ہے۔