10 اکتوبر ، 2019
ترکی کی جانب سے شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں جاری ہیں، ترک افواج کی بمباری کے دوران شامی کُرد ملیشیا کے 16 ارکان ہلاک ہوگئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی کی جانب سے شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقے راس العین میں کُرد ملیشیا کے 181 ٹھکانوں پر بمباری کی گئی جس کے دوران کُرد ملیشیا کے 16 ارکان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
کُردوں کی سربراہی میں لڑنے والے سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) اور ترک افواج کے درمیان سرحدی علاقے میں شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔
ترک افواج کے حملوں کے بعد علاقے سے بڑی تعداد میں شہریوں کا انخلا جاری ہے اور مقامی افراد محفوظ مقام کی جانب جارہے ہیں۔
ترک صدر کی جانب سے فوجی کارروائی شروع کرنے کے اعلان کے بعد بدھ کے روز ترک فوج اور ان کے اتحادی شامی باغیوں نے فرات کے مشرقی علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کردی تھی اور کرد تنظیم پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کے زیر قبضہ علاقے تل ابیض میں جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں۔
سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے ترجمان مصطفیٰ بالی کا کہنا ہے کہ ان کی فورسز نے زمینی حملے کو پسپا کردیا ہے اور اب تک ترکی کی جانب سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔
ترکی اور شام کی موجودہ صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی ہوا جب کہ عرب لیگ نے ہفتے کو اپنا اجلاس طلب کیا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد یورپی رکن ممالک فرانس، جرمنی، برطانیہ، بیلجیئم اور پولینڈ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں شمالی شام میں ترک فورسز کے آپریشن پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ترکی سے یکطرفہ آپریشن روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔
دوسری جانب ایران نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر شام میں عسکری کارروائی کا سلسلہ معطل کرے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی اپنی فوجیں فوری طور پر شامی علاقے سے واپس بلائے اور حملوں کا سلسلہ بند کرے۔
واضح رہے کہ ترکی اپنی سرحد سے متصل شام کے شمالی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود 20 لاکھ شامی مہاجرین کو وہاں ٹہرانا چاہتا ہے۔
اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے‘ کو انقرہ دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اسے ترکی کے علیحدگی پسند اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔
گذشتہ روز ترک صدر طیب اردوان نے اپنی ٹوئٹ میں کُرد باغیوں کے خلاف بہارِ امن ’پیس اسپرنگ‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بہار امن آپریشن کا مقصد شمالی شام میں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ اور خطے میں امن قائم کرنا ہے، اِس آپریشن سے سیف زون کے قیام کی جانب بڑھیں گے تاکہ شامی مہاجرین کو ان کے گھروں میں بسایا جاسکے۔
شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کے ترکی کے فیصلے کے بعد امریکا نے اپنی فوجیں شام ترک سرحدی علاقے سے پیچھے ہٹانےکا اعلان کیا تھا جس پر کُرد ملیشیا نے امریکا پر ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کا الزام عائد کیاتھا۔
واضح رہے کہ شام میں داعش کے خلاف جنگ میں سیرین ڈیموکریٹک فورس نے اہم کردار ادا کیا تھا اور شمالی شام کے کُرد اس گروپ کےسب سے اہم اتحادی تھے جب کہ امریکی افواج اس گروپ کو عسکری تربیت اور امداد کیلئے وہاں موجود تھیں ۔
امریکا کی جانب سے فوج ہٹانے اور شامی کردوں کی مدد سے ہاتھ کھینچنے پر شدید تنقید کی جارہی ہے جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ترک اور کُرد صدیوں سے ایک دوسرے سے لڑتے آرہے ہیں اور اب کرد اپنی سرزمین کیلئے لڑ رہے ہیں، کُردوں نے بھی جنگ عظیم دوم میں ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی شام میں حملے کیلئے ترکی کو امریکا کی جانب سے گرین سگنل دیے جانے کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کے شام سے فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ترکی کو اس کے جنوب سے دہشتگردی کا خطرہ اور مناسب سیکیورٹی خدشات تھے۔