11 اکتوبر ، 2019
وزیراعظم عمران خان اتوار کو ایک روزہ دورے پر ایران اور سعودی عرب جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان دورہ ایران اور سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے پر بات کریں گے۔
وزیراعظم دونوں ممالک کے درمیان امن اور بہترین روابط کیلئے بھی بات چیت کریں گے جبکہ وزیراعظم اپنے دورے میں مسئلہ کشمیر بھی اجاگر کریں گے۔
دوسری جانب ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایران کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا پیغام پہنچایا ہے۔
ترجمان ایرانی حکومت نے کہا کہ وزیراعظم نے یہ پیغام دورے سے ایک روز پہلے تہران بھجوایا، پیغام میں سعودی ولی عہد نےایران کو بات چیت کی پیشکش کی ہے۔
ترجمان ایرانی حکومت نے مزید کہا کہ یمنی عوام کی شمولیت کے بغیرسعودی عرب سے بات چیت کو ضروری نہیں سمجھتے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ایران سے بات چیت کا کہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی سے نیویارک میں ملاقات کی تھی تاہم اس حوالے سے مزید معلومات سامنے نہیں آئیں اور عمران خان نے بھی کچھ بتانے سے گریز کیا۔
بعد ازاں جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے واضح طور پر کیا تھا کہ ’وہ تمام ممالک جو ایران کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ سن لیں کہ مذاکرات کا ایک ہی طریقہ ہے، جیسا کہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا، جوہری معاہدے کے بدلے کیے جانے والے وعدے پورے کیے جائیں‘۔
انہوں نے خلیجی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ ’امریکا ہمارا اور آپ کا پڑوسی نہیں ہے بلکہ ایران پڑوسی ہے، مشکل حالات میں پڑوسی ہی ساتھ ہوں گے امریکا نہیں‘۔
یاد رہے کہ 14 ستمبر 2019 کو سعودی عرب کی دو بڑی آئل فیلڈز پر حملے کیے گئے تھے جن میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ عبقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری یمن میں حکومت اور عرب عسکری اتحاد کے خلاف برسرپیکار حوثی باغیوں نے قبول کی تاہم امریکی صدر نے ٹوئٹس میں اشارہ دیا کہ امریکا جانتا ہے کہ یہ حملے کس نے کیے لیکن وہ سعودی عرب کے جواب کا انتظار کررہا ہے کہ وہ کسے ذمہ دار سمجھتا ہے۔
اس کے بعد عرب عسکری اتحاد کے ترجمان کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے یمن سے نہیں کہیں اور سے ہوئے اور اس میں ایرانی ہتھیار استعمال ہوئے۔
ایک امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے ایران سے ہوئے اور اس میں کروز میزائل استعمال کیے گئے۔ اس کے بعد 18 ستمبر کو سعودی عرب کی جانب سے تیل تنصیبات پر حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے شواہد پیش کیے گئے۔
سعودی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا کہ حملوں میں 18 ڈرونز اور 7 کروز میزائل جس سمت سے استعمال کیے گئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حملے یمن سے نہیں ہوئے۔
کرنل ترکی المالکی نے بتایا کہ حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے ملنے کے جانچ سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ حملے شمال کی جانب سے کیے گئے اور بلاشبہ اسے ایران نے 'اسپانسر' کیا۔
21 ستمبر کو امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی درخواست پر مزید فوجی دستے اور سازو سامان بھیجنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکا نے ایران کے مرکزی بینک اور دو مالیاتی اداروں پر پابندیاں عائد کیں جنہیں واشنگٹن کی جانب سے تہران پر اب تک کی سب سے بڑی معاشی پابندیاں قرار دیا گیا۔
اس کے جواب میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جارحیت کرنے والے ملک کو تباہ کرنے کیلئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک نے بھی ایران پر حملہ کیا اسے ہی میدان جنگ بنادیں گے، ہم کسی بھی جارحیت کرنے والے ملک کا مسلسل تعاقب کریں گے اور اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وہ مکمل تباہ نہ ہوجائے لہٰذا محتاط رہیں اور غلطی نہ کریں۔
اس کے بعد سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ عادل الجبیر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تیل تنصیبات پر حملوں کی تحقیقات جاری ہیں، اگر ایران ملوث نکلا تو جوابی کارروائی کریں گے۔
اس تمام تناظر میں ایران نے مؤقف اپنایا کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ یمن میں عرب عسکری اتحاد کی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔