25 ستمبر ، 2019
ایران کے صدر حسن روحانی نے مذاکرات کیلئے پر تولنے والے ممالک کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم دشمن کی پابندیوں میں رہتے ہوئے مذاکرات نہیں کریں گے‘۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران اپنے اور پڑوسی ملکوں کیلئے امن چاہتا ہے، پڑوسی ممالک میں امن و سلامتی ایران میں امن و سلامتی کے مترادف ہے۔
انہوں نے خلیجی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکا ہمارا اور آپ کا پڑوسی نہیں ہے بلکہ ایران پڑوسی ہے، مشکل حالات میں پڑوسی ہی ساتھ ہوں گے امریکا نہیں‘۔
ایرانی صدر نے معاشی پابندیوں کے حوالے سے کہا کہ تاریخ کی بد ترین پابندیاں ایران کے وقار کیلئے نقصان دہ ہیں، امریکا نے ایران کو عالمی معیشت میں حصہ دار بننے سے محروم کر رکھا ہے لیکن ایران نے اپنے خلاف ہونے والی بدترین معاشی دہشت گردی پر مزاحمت کی ہے۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ایران خطے میں آزادی کی تحریکوں کے بانیوں میں سے ہے اور ہم نے کبھی بھی غیر ملکی جارحیت اور دباؤ کے آگے سر نہیں جھکایا۔
ایران کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنے والے ممالک کو پیغام
ایرانی صدر نے کہا کہ وہ تمام ممالک جو ایران کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ سن لیں کہ مذاکرات کا ایک ہی طریقہ ہے، جیسا کہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا، جوہری معاہدے کے بدلے کیے جانے والے وعدے پورے کیے جائیں۔
ایرانی صدر کے خطاب کا مکمل متن
صدر حسن روحانی نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ امریکا ہمیں مذاکرات کیلئے بلاتا ہے لیکن پھر معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا، ایران اب بھی پابندیوں کے دباؤ کے بغیر بات چیت کیلئے تیار ہے کیوں کہ ہم دشمن کی پابندیوں میں رہتے ہوئے مذاکرات نہیں کریں گے۔
ایرانی صدر نے مطالبہ کیا کہ ایران پر پابندیاں ختم جائیں تاکہ مذاکرات کیلئے راہ ہموار ہوسکے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ایران سے بات چیت کا کہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی سے نیویارک میں ملاقات کی تھی تاہم اس حوالے سے مزید معلومات سامنے نہیں آئیں اور عمران خان نے بھی کچھ بتانے سے گریز کیا۔
امریکی پابندیاں ختم کی جائیں تو 2015 کی ڈیل میں تبدیلیوں کیلئے تیار ہیں، حسن روحانی
جوہری معاہدے کے حوالے سے حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران اب بھی یورپ کے ساتھ طے کردہ جوہری معاہدے پر کاربند ہے، 2015 کی ایٹمی ڈیل پر واپسی کے بغیر ایران امریکا سے بات نہیں کرے گا، اگر امریکی پابندیاں ختم کی جائیں تو 2015 کی ڈیل میں تبدیلیوں کیلئے تیار ہیں۔
ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں علاقائی تعاون کا منصوبہ ’امید کے اتحاد‘ پیش کیا جو خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سلامتی سے متعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے متاثرہ ممالک ’امید کے اتحاد‘ میں شامل ہوں، امید کے اتحاد میں توانائی سیکیورٹی، آبنائےہرمز کے راستے اور اس کے پار تیل کی منتقلی کے امور شامل ہیں۔
بیرونی مداخلت کے باوجود ہم واپس ترقی کی راہ پر ہیں، ایرانی صدر
ایرانی صدر نے کہا کہ ایران کا پیغام ہے، جنگ کے بجائے امن کیلئے سرمایہ کاری کریں، بیرونی مداخلت کے باوجود ہم واپس ترقی کی راہ پر ہیں اور خلیج میں امن پورے خطے کی شرکت سے ہی ممکن ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد خطے کی صورتحال کشیدہ ہے اور ساتھ ہی امریکا کی جانب سے ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ 14 ستمبر 2019 کو سعودی عرب کی دو بڑی آئل فیلڈز پر حملے کیے گئے تھے جن میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ عبقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری یمن میں حکومت اور عرب عسکری اتحاد کے خلاف برسرپیکار حوثی باغیوں نے قبول کی تاہم امریکی صدر نے ٹوئٹس میں اشارہ دیا کہ امریکا جانتا ہے کہ یہ حملے کس نے کیے لیکن وہ سعودی عرب کے جواب کا انتظار کررہا ہے کہ وہ کسے ذمہ دار سمجھتا ہے۔
اس کے بعد عرب عسکری اتحاد کے ترجمان کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے یمن سے نہیں کہیں اور سے ہوئے اور اس میں ایرانی ہتھیار استعمال ہوئے۔
ایک امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے ایران سے ہوئے اور اس میں کروز میزائل استعمال کیے گئے۔ اس کے بعد 18 ستمبر کو سعودی عرب کی جانب سے تیل تنصیبات پر حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے شواہد پیش کیے گئے۔
سعودی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا کہ حملوں میں 18 ڈرونز اور 7 کروز میزائل جس سمت سے استعمال کیے گئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حملے یمن سے نہیں ہوئے۔
کرنل ترکی المالکی نے بتایا کہ حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے ملنے کے جانچ سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ حملے شمال کی جانب سے کیے گئے اور بلاشبہ اسے ایران نے 'اسپانسر' کیا۔
21 ستمبر کو امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی درخواست پر مزید فوجی دستے اور سازو سامان بھیجنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکا نے ایران کے مرکزی بینک اور دو مالیاتی اداروں پر پابندیاں عائد کیں جنہیں واشنگٹن کی جانب سے تہران پر اب تک کی سب سے بڑی معاشی پابندیاں قرار دیا گیا۔
اس کے جواب میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جارحیت کرنے والے ملک کو تباہ کرنے کیلئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک نے بھی ایران پر حملہ کیا اسے ہی میدان جنگ بنادیں گے، ہم کسی بھی جارحیت کرنے والے ملک کا مسلسل تعاقب کریں گے اور اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وہ مکمل تباہ نہ ہوجائے لہٰذا محتاط رہیں اور غلطی نہ کریں۔
اس کے بعد سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ عادل الجبیر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تیل تنصیبات پر حملوں کی تحقیقات جاری ہیں، اگر ایران ملوث نکلا تو جوابی کارروائی کریں گے۔
اس تمام تناظر میں ایران نے مؤقف اپنایا کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ یمن میں عرب عسکری اتحاد کی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔