پاکستان
Time 14 اکتوبر ، 2019

ملزم فیصل نے جج ارشد ملک اور ناصربٹ کی ویڈیو بنانے کا اعتراف کرلیا

جج ارشد ملک اور ناصربٹ کی ملاقات میں ویڈیو میں نے بنائی، ویڈیو بنانے میں ناصربٹ کے سہولت کار کا کردار ادا کیا: ملزم فیصل شاہین کا مجسٹریٹ کے روبرو بیان میں اعتراف — فوٹو: اسکرین گریب/فائل

اسلام آباد: جج وڈیو اسکینڈل کیس کے ملزم فیصل شاہین نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک اور لیگی کارکن ناصربٹ کی ویڈیو بنانے کا اعتراف کرلیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے جج وڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی۔ 

سماعت کے دوران  2 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے ملزم حمزہ بٹ کے جسمانی ریمانڈ میں 3 دن کی توسیع کی جبکہ ملزم فیصل شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھجوانے کا حکم دیا۔

ملزم فیصل شاہین کا مجسٹریٹ کے روبرو ریکارڈ کیا گیا بیان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جس میں انہوں نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک اور ناصربٹ کی ویڈیو بنانے کا اعتراف کیا۔

مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں فیصل شاہین کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک اور ناصربٹ کی ملاقات میں ویڈیو میں نے بنائی، ویڈیو بنانے میں ناصربٹ کے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ 

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل میں نامزد تین ملزمان کو بری کیا تھا جن میں ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور غلام جیلانی شامل ہیں۔

جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ 

اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی، فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔

 وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

مزید خبریں :