دنیا
Time 15 اکتوبر ، 2019

ترکی اور شام میں ممکنہ تصادم روکنے کیلئے روسی فوج کا گشت


شمالی شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف ترکی کی عسکری کارروائی جاری ہے جبکہ روس کا کہنا ہے کہ وہ ترکی اور شامی فوج کے درمیان تصادم نہیں ہونے دے گا۔

شام میں روس کے نمائندہ خصوصی الیگزینڈر لاورینٹیو کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تصادم بالکل بھی قابل قبول نہیں ہوگا اور اس حوالے سے روس ترکی اور شامی حکام دونوں سے رابطے میں ہے۔

الیگزینڈر لاورینٹیو کا کہنا ہے کا روسی افواج شمالی شام میں ترکی اور شامی افواج کے درمیان ممکنہ تصادم والے علاقے منبج میں گشت بھی کررہی ہیں۔

گذشتہ روز کُرد ملیشیا سے معاہدے کے بعد شام کی سرکاری افواج ترک سرحد کے قریبی علاقے عین العیسا اور تلتمیر میں داخل ہوگئی تھیں،شام میں موجود کُردوں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے ترکی کی جانب سے ان کے خلاف جاری کارروائی کو روکنے کیلئے اپنی فوج شمالی سرحد پر بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔

واضح رہے کہ روس شامی صدر بشارالاسد کا اہم اتحادی ہے اور اس کی افواج 2015 سے شام میں موجود ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا  ترکی پر فوری جنگ بندی پر زور 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب اردوان پر شام میں جاری فوجی کارروائی فوری طور پر روکنے پر زور دیاہے۔

نائب امریکی صدر مائیک پنس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران شام میں جاری عسکری کارروائی فوری طور پر روکنے پر زور دیا ہے۔

مائیک پنس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو کردوں کے ساتھ مذاکرات اور فوری جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

نائب امریکی صدر کے مطابق وہ امریکی صدر کی ہدایت پر امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن کے ساتھ جلد ترکی کا دورہ کریں گے۔

امریکا نے ترکی پر پابندیاں عائد کردیں

شام میں کُرد ملیشیا پر ترک حملے کے بعد امریکا نے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا کی جانب سے ترکی کی وزارت دفاع اور توانائی پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں جب کہ ترکی کے دو وزرا اور تین سینئر عہدیداروں پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔

امریکی وزارت خزانہ کا کہنا ہےکہ ترک حکومت کی کارروائی سے بے گناہ شہری خطرے میں ہیں اور خطہ عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے، اس کے علاوہ داعش کو شکست دینے کی مہم بھی کمزور پڑ رہی ہے۔

ترکی کا شام میں آپریشن جاری رکھنے کا اعلان

ترکی نے شمالی شام میں جاری آپریشن بہار امن (پیس اسپرنگ) جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ترک صدر کے ترجمان نے شامی فوج اور کُرد ملیشیا کے درمیان ہونے والے معاہدے کو غلیظ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ترکی کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

ترجمان ترک صدر کا کہنا ہے کہ دنیا چاہے ہماری کوششوں کو نظرانداز کرے  اور ہمارا ساتھ نہ دے لیکن ہم پی کے کے(ترکی میں سرگرم کُرد گروپ) اور داعش سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں فوجی آپریشن کیا جارہا ہے جس کا مقصد وہاں سے شامی کرد ملیشیا کو پیچھے دھکیل کر اپنی سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔

ترکی اپنی سرحد سے متصل شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ شامی مہاجرین کو بھی وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔

اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے‘ کو انقرہ دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اسے ترکی کے علیحدگی پسند اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔

مزید خبریں :