16 اکتوبر ، 2019
کراچی: مولانافضل الرحمن نے تاحال اپناخفیہ ’منصوبہ‘شیئرنہیں کیا لیکن جوانھوں نے پیرکودکھایا ہےوہ بالکل غیرمثالی ہے اورحکومت اوردیگرحلقوں کیلئےایک پیغام بھی ہے۔
اس سے اپوزیشن جماعتوں کے اندربھی تشویش پیدا ہوئی ہے انھوں نے تاحال شرکت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ مولاناکیا کرناچاہتے ہیں؟ ہم نے کارکنان کا’فلیگ مارچ کبھی کبھار ہی دیکھاہےلیکن مولانا نے پشاور میں اپنے کارکنان سے’گارڈ آف آنر‘ بھی لیا جس سے واضح طور پر پتہ لگتا ہے کہ وہ 31 اکتوبر کو ’آزادی مارچ‘ کے نام پر اسلام آباد آرہے ہیں۔
خطرے کے بارے میں جانتے ہوئے بھی انھوں نے اسلام آباد کی جانب ’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ مارچ کا فیصلہ کیا۔ غالباً جس بات کا اندازہ انھوں نے غلط لگایا وہ یہ ہے کہ ان کے حریف وزیراعظم عمران خان کسی بھی حالت میں ہاریں گے نہیں۔ اگراُن کی حکومت کا تختہ الٹ جاتا ہے۔
اس کے برعکس وہ زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں اور ان کی ساری حکومت کی گزشتہ 13ماہ کی کارکردگی سے توجہ ہٹ جائے گی اور اگر مولانا ناکام ہوتے ہیں تواپوزیشن کی اکثریت کے باوجودچیئرمین سینٹ کےخلاف عدم اعتماد کےووٹ کے دفاع کےبعد یہ پی ٹی آئی کیلئے ایک اور بڑی کامیابی ہوگی۔ لہذا مولانا کی سیاست کیا ہے اور وہ کیوں اتنی جلدی میں نظر آرہے ہیں جب حکومت کو آئےصرف 13ماہ ہی ہوئے ہیں۔
حتیٰ کہ انھوں نےاپوزیشن کی جانب سے مارچ کو نومبر کے وسط یا اس کےآخری ہفتے میں کرنے کی درخواست کو بھی نظرانداز کردیا ہے۔ وہ 31اکتوبر اور 31نومبرکےدرمیان کیا حاصل کرناچاہتے ہیں؟ انھوں نے منصوبےکا پارٹ ٹو اور پارٹ تھری کی جانب بھی اشارہ کیا جس کے بارے میں جے یو آئی(ف) کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پارٹی رہنماؤں کی گرفتاری کی صورت میں اس کو نافذ کیاجائے گا۔
مولانا نے اپنی تنظیم کو پورے پاکستان میں متحرک کردیا ہے ایسا صرف آزادی مارچ کے لیے نہیں بلکہ مارچ کے پلان کے بعد کے منصوبے کیلئے بھی کیا گیا ہے۔ ’’ اگرحالات بےقابو ہو گئے تو مسجد اور مدرسےکی جانب سے آپ کو1977کی جھلک بھی نظر آسکتی ہے اور ہم اس سب کیلئے تیار ہیں،‘ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔
وہ جے یو آئی کے زیرانتظام ’مساجد اور مدارس کو دباؤ ڈالنےکیلئے استعمال کریں گے اور جے یوآئی کےنچلے کیڈرکو کام سونپ دیا گیا ہے۔ مولانا کا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر آنےوالی سیاسی تبدیلیوں کے باعث اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔
وہ اب مذہبی جماعتوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور پہلے ہی جہادی تنظیموں کو چھوڑ چکے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔