Time 16 اکتوبر ، 2019
پاکستان

مذاکرات صرف وزیراعظم کے استعفے کے بعد ہوں گے: مولانا کا دوٹوک مؤقف


جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کا امکان مسترد کردیا۔

وزیراعظم عمران خان نے پارٹی کی کور کمیٹی اجلاس میں جے یو آئی (ف) سے مذاکرات کیلئے وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

تاہم اب مولانا فضل الرحمان نے حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کا امکان مسترد کردیا ہے۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ نہ انہیں کسی حکومتی کمیٹی کا علم ہے اور نہ ہی کسی نے ہم سے رابطہ کیا ہے، مذاکرات صرف وزیراعظم کے استعفے کے بعد ہوں گے۔

 ملک کو بچانےکیلئے حکومت کو گھر بھیجنا ضروری ہے، احسن اقبال

مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ملک کو بچانےکیلئے حکومت کو گھر بھیجنا ضروری ہے لہٰذا فوری طور پر نئے انتخابات کرائے جائیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ حکومت کو جانا پڑے گا اور حکومت کو گھر بھیجنے کے مطالبے پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں لہٰذا کارکن اور عہدیدار جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ساتھ دیں۔

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے حکومت کے خلاف 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے حمایت کی ہے۔

11 اکتوبر کو حکومتی ترجمانوں کے اجلاس کے اختتام پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کا تذکرہ ہوا تھا اور شرکائے اجلاس نے وزیراعظم سے سوال کیا تھا کہ کیا جے یو آئی سے مذاکرات کیلئے کوئی کمیٹی قائم کی گئی ہے؟

اس پر وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ کمیٹی کے قیام کی فی الحال ضرورت نہیں مگر مذاکرات کا آپشن کھلا ہے، اگر کوئی خود بات کرنا چاہے تو دروازے بند نہیں ہیں۔

وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مدرسہ ریفارمز سمیت اہم ایشوز پر کوئی بات کرنا چاہے تو اعتراض نہیں۔

تاہم اب تحریک انصاف کی کور کمیٹی اجلاس میں جے یو آئی (ف) سے مذاکرات کیلئے پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

فضل الرحمان کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔

19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔

فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن آج سے حکومت کے خلاف تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے، ان حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے قوم ہمارا ساتھ دے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔

مزید خبریں :