Time 16 اکتوبر ، 2019
پاکستان

وزیراعظم عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنادی


وزیراعظم عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے حوالے سے  وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنادی۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت تحریک انصاف کی کورکمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے حوالے سے وزیر دفاع پرویزخٹک کو ذمہ داری دے دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ آزادی مارچ کے سیاسی حل کیلئے پرویز خٹک کمیٹی کے ارکان کا انتخاب خود کریں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ سیاسی حل کیلئے مذاکرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

خیال رہے کہ کچھ روز قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات کا آپشن کھلا ہے، کمیٹی کے قیام کی فی الحال ضرورت نہیں ، اگر کوئی خود بات کرنا چاہے تو دروازے بند نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی میں 4 ارکان شامل  

ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات کیلئے 4 رکنی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے سربراہ پرویز خٹک ہوں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی میں چاروں صوبوں کے پارٹی نمائندے ہوں گے، مذاکراتی کمیٹی کے ناموں کو  جلد حتمی شکل دی جائے گی جبکہ مذاکراتی کمیٹی دوسری اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطے کرے گی۔

وزیراعظم نے کور کمیٹی کو ایران اور سعودی عرب کے دورے پر  بھی اعتماد میں لیا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کا معیشت کے حوالے سے کہنا تھا کہ ملکی معیشت مشکل حالات سے باہر نکل چکی ہے، بہت جلد معاشی مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے حکومت کے خلاف 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے حمایت کی ہے۔ 

فضل الرحمان کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کررکھا ہے تاہم مارچ میں شرکت کے حوالےسے دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔

10 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے مولانا کے آزادی مارچ میں شرکت کی مخالفت کی۔ شہباز شریف کے مطابق اگر مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اور دھرنا مِس فائر ہوا تو حکومت کو نئی زندگی مل جائے گی۔

اس اجلاس کی تفصیلات لے کر اگلے روز ن لیگ کا وفد پارٹی قائد نواز شریف سے حتمی منظوری کیلئے کوٹ لکھپت جیل گیا تاہم شہباز شریف کمر درد کی وجہ سے نہ جاسکے۔

اسی دوران ن لیگ میں اختلافات کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں تاہم ن لیگ نے انہیں مسترد کردیا۔ اگلے روز نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کردیا۔

لاہور کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ نہ صرف مولانا فضل الرحمان کے جذبے کو سراہتے ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کو پوری طرح سپورٹ بھی کرتے ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کو اپنا ہی مؤقف سمجھتے ہیں، مولانا احتجاج کر رہے ہیں تو وہ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں۔

نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے فوری بعد استعفوں کی تجویز دی تھی، مولانا نے کہا تھا کہ احتجاج کریں لیکن ہم نے انہیں اس وقت قائل کیا کہ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت مولانا کی بات میں وزن تھا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اب سمجھتا ہوں کہ مولانا صاحب کی بات کو رد کرنا بالکل غلط ہوگا۔

مزید خبریں :