23 اکتوبر ، 2019
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے فوجدری اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ٹیکس دینے والے رجسٹرڈ تاجر کو جیل بھیج کر آخر ایف بی آر کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟
سپریم کورٹ میں ایف بی آر کے فوجداری اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ تاجر برادری کے خلاف ایف بی آر کے غلط استعمال کی بہت زیادہ شکایات ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر رات 2 بجے گھر پر چھاپہ مار کر بندہ اٹھالیتا ہے، گرفتار شخص کا بازو مروڑ کر کہا جاتا ہے کہ اتنی رقم دو ورنہ جیل بھیج دیں گے۔
جسٹس فیصل عرب کا مزید کہنا تھا کہ تمام بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اٹھالیا جاتا ہے، جس شخص نے زندگی میں تھانے کی شکل نہیں دیکھی ہوتی اسے جیل بھجوادیا جاتا ہے۔
اس دوران جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ تاجر کی گرفتاری کے بعد اسے بلیک میل کیا جاتا ہے اور وہ اپنی عزت نفس بچانے کے لیے پیسے دے دیتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ٹیکس دینے والے رجسٹرڈ تاجر کو جیل بھیج کر ایف بی آر کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ رجسٹرڈ تاجر کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پہلی سطح پر گرفتاری کے بجائے انکوائری کی جانی چاہیے۔
اس موقع پر عدالت میں موجود ٹیکس ایکسپرٹ ڈاکٹر طارق مسعود نے عدالت کو بتایا کہ بعض لوگوں نے جعلی اور دوسرے لوگوں کے نام سے کمپنیاں رجسٹرڈ کروارکھی ہوتی ہیں۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال کے کہا یہ تو ایف بی آر کی نااہلی ہے، وہ رجسٹریشن کرتے وقت چیک کیوں نہیں کرتاْ؟ ایف بی آر کو جعلی کمپنیوں کی رجسٹریشن کو معطل کرنا چاہیے۔
ٹیکس ایکسپرٹ نے عدالت کو بتایا کہ تاجر برادری کی گرفتاری کے عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے قواعد میں ترمیم ضروری ہے، کوشش ہے کہ گرفتاری ضروری ہو تو کم ازکم کمشنر اس کی منظوری دے۔
عدالت عظمیٰ نے ٹیکس گزاروں کے وکلاء سے آئندہ سماعت پر نظام میں بہتری کے لیے تجاویز طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔