28 اکتوبر ، 2019
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے میری رائے میں انصار الاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن ہی غیر مؤثر ہے۔
جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔
دوران سماعت انصار الاسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہم پرائیویٹ ملیشیا تو نہیں، ہماری تنظیم جمیعت علمائے اسلام کا حصہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پرائیویٹ ملیشیا نہیں ڈنڈے تو ہیں، جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔
وکیل انصار الاسلام نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر یہ سیاسی جماعت کے ممبر ہیں تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر مؤثر ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصارالاسلام کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کو سنا بھی نہیں؟
وکیل کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ ہمیں وزارت داخلہ نے سنے بغیر پابندی لگا دی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے میری رائے کے مطابق تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر مؤثر ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ جب تنظیم کا باقاعدہ وجود نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے، خاکی وردی کی بجائے سفید پہن لیں تو پھر کیا ہو گا؟
وکیل انصار الاسلام نے کہا کہ قائداعظم کے دور سے یہ تنظیم کام کر رہی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کم ازکم آپ کو حکومت پوچھ تو لیتی کہ یہ تنظیم کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 24 اکتوبر کو وزارتِ داخلہ نے انصارالاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اور اس پر پابندی لگا دی گئی۔
عدالت نے وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرتے ہوئے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام کو سنے بغیر وزارت داخلہ نے پابندی لگائی، وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی، کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔