28 اکتوبر ، 2019
پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی۔
پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر عبدالصمد خان نے اپیل دائر کی جس میں ملزموں کی بریت پر اعتراض اٹھایاگیا ہے اور کہاگیاہےکہ یا تومقدمے کی تفتیش درست نہیں ہوئی یا پھرگواہوں نے اپنے بیانات تبدیل کرلیے۔
اپیل میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ قانون کے تحت گواہوں کے بیانات تبدیل کرنےاور ناقص تفتیش پرذمے داروں کیخلاف کارروائی کی جائے جبکہ سانحہ ساہیوال کے ملزموں کی بریت کافیصلہ کالعدم قراردیا جائے۔
خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ساہیوال میں 4 افراد کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے مقدمے میں مقتول ذیشان کے بھائی اور خلیل کے بچوں سمیت 49 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تاہم تمام گواہان نے عدالت کے روبرو ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کردیا۔
مقدمے میں وکلا اور سرکاری گواہوں کے بیانات پر 9 ماہ بعد جرح مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتےہوئے تمام 6 ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔
فیصلے پر عوامی تنقید کے بعد وزیراعظم عمران خان نے حکومت کو ہدایات دیں کہ وہ اس فیصلے کیخلاف اپیل دائر کرے۔
ترجمان وزیراعظم افضل ندیم چن نے بھی سانحہ ساہیوال سے متعلق کیس کے عدالتی فیصلے کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں انصاف نہیں ہوا اور جلیل کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ اس نے پیسے لے کر یا دباؤ میں صلح کی ہے۔
19 جنوری 2019 کی سہ پہر محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں خلیل، اس کی اہلیہ، بیٹی اور محلے دار ذیشان گولیاں لگنے سے جاں بحق ہوئے جب کہ کارروائی میں تین بچے بھی زخمی ہوئے۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا پھر ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
تاہم میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم نے واقعے کا نوٹس لیا اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔