پاکستان
Time 02 نومبر ، 2019

’بظاہر طاقتور حلقوں کو دو روز کا وقت دیا گیا ہے‘

حکومت کو اس بات سے خوشی ہو گی کہ دھرنا اتوار بازار گرائونڈ تک ہی محدود رہے: فوٹو/ اے ایف پی 

اسلام آباد:بلی گو کہ جزوی طور پر تھیلے سے باہر آ گئی ہے، اب محاذ آرائی کا منظر ابھرنے لگا ہے۔ آخری لمحات میں فضل الرحمٰن نے اپنے احتجاج کے اگلے مرحلے کے بارے میں کسی حد تک راز پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ ابتدا میں دو دنوں کے لئے دھرنا دیا جائے گا۔

آئندہ کیا ہو گا، اس کا کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے تاہم آزادی مارچ کے شرکاء نے ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد اگر متعینہ میدان سے بڑھ کر ڈی چوک سمیت حساس علاقوں کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو اس سے محاذ آرائی کی خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا کہ تصادم سے گریز کیوں کر کیا جائے گا۔

حکومت کو اس بات سے خوشی ہو گی کہ دھرنا اتوار بازار گرائونڈ تک ہی محدود رہے۔ کچھ وزراء کا کہنا ہے کہ مقررہ جگہ دھرنا سال بھر بھی جاری رہا تو انہیں اعتراض نہیں ہو گا لیکن اگر احتجاج کرنے والوں نے ڈی چوک کی جانب پیش قدمی کی تو یہ بات ان کے لئے گھبراہٹ اور پریشانی کا باعث ہو گی۔

مزید آگے کا قطعی منصوبہ اور حکمت عملی فضل الرحمٰن ہی بہتر جانتے ہیں بظاہر وہ جس مشن پر ہیں، اس کی تکمیل چاہتے ہیں۔ وہی بہتر جانتے ہیں کہ اگلامرحلہ دو روزہ دھرنے کے بعد کس قدر طویل ہو گا تاہم اشارے اسی بات کے ہیں کہ احتجاج متعینہ جگہ تک محدود نہیں رہے گا۔ اپنے وہم و گمان سے زیادہ بڑے اجتماع سے خطاب میں فضل الرحمٰن کا لب و لہجہ جارحانہ رہا۔ انہوں نے دھمکیاں دیں اور کہا کہ وہ معاملے سے نمٹنا جانتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے انہوں نے عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے طاقتور حلقوں کو دو روز کا وقت دیا ہے لیکن انہوں نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ ہجوم کا پرزور مطالبہ تھا کہ ڈی چوک کی جانب بڑھا جائے۔ بلاول، شہبازشریف اور دیگر اپوزیشن رہنما آزادی مارچ کے حامی اور دھرنے کے مخالف رہے۔ آزادی مارچ منظم اور پرامن رہا، کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔

جلسہ عام بھی معمول کی بات رہی لیکن مظاہرین نے اگر مقررہ جگہ چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو امن و امان بگڑنے کا شدید خدشہ ہے، جب سرخ لکیر عبور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان اپنے موقف پر قائم اور استعفیٰ نہ دینے کے بارے میں پرعزم ہیں۔

گلگت و بلتستان کے اجتماع میں ان کے ریمارکس مظاہرین کے جذبات بھڑکانے کے لئے کافی تھے۔ 

مزید خبریں :