02 نومبر ، 2019
اسلام آباد: ذمہ دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سےحکومت کے مستعفیٰ ہونے کے حوالے سے دو روز کی مہلت کے بارے میں اعلیٰ سطح پر غور کیا گیا اور ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اہم فیصلے کئے گئے ۔
اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام نے بھی مارچ کے اگلے مرحلے سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی طے کر لی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ سطح پر اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ مولانا نے 15 سے 20 لاکھ لوگوں کا اجتماع کرنے کا اعلان کیا تھا مگر وہ اس تعداد کا 5 فیصد بھی نہ لاسکے اور اس میں پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن سمیت تقریبا تمام اپوزیشن پارٹیاں شامل تھیں مگر جلسے کے شرکاء کی تعداد توقع سے بھی بہت کم نکلی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت اس بات کا انتظار کرے گی کہ دو دن بعد مولانا فضل الرحمٰن کس لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں اس کی روشنی میں حکومت اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے تمام سیکیورٹی اداروں پولیس ، رینجرز اور ایف سی کو الرٹ کر دیا ہے جبکہ انتہائی اشد ضرورت میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے فوج کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے ۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی اعلیٰ شخصیات نے وزیر اعظم عمران خان کے استعفے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سیاسی طور پر بھر پور مقابلہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔
دوسری جانب اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام نے آزادی مارچ کے اگلے مرحلے سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی طے کر لی ہے اس ضمن میں جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ کو اسلام آبا د میں داخل ہونے کی اجازت دینا سیاسی فیصلہ تھا جس کی انہوں نے پاسدار ی کی ہے اور آزادی مارچ کے شرکا ء کی نہ صرف حفاظت کی گئی بلکہ ان کیلئے راستے بھی صاف رکھیں گے، حکومتی کمیٹی سے رہبر کمیٹی کی سطح پر طے ہونے والی بات چیت میں تبدیلی سے نمٹنے کا فیصلہ بھی اسی فورم پر ہو گا۔
جب معاملہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے پاس آئے گا تواس سے ہم اپنے انداز میں نمٹیں گے، اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں کی حفاظت کریں گے ،ڈپلو میٹک انکلیو میں مکین سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آبا دشہریوں کی آمد رفت کو محفوظ بنانے بچوں کو سکولوں اور کالجوں میں آنے جانے کیلئے تحفظ فراہم کرنے سمیت اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کریں گے،
ملک بھر میں سے آنے والے شرکا ء جب تک محذب شہریوں کی طرح پر امن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے تو انہیں مہمانوں کی طرح سہولیات فراہم کریں گے اگر انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو سختی سے نمٹیں گے ۔