03 نومبر ، 2019
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ بغیر کسی بغیر پیشرفت کے اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔
خیال رہے کہ یکم نومبر کو جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا۔
ڈیڈ لائن ختم ہونے اور آزادی مارچ کے چوتھے روز خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا گیا الیکشن کمیشن جائیں اور وہاں اپنی شکایت درج کرائیں، الیکشن کمیشن بیچارہ تو ہم سے بھی زیادہ بے بس ہے، اگر وہ بے بس نہ ہوتا تو قوم کی اتنی بڑی تعداد اسلام آباد میں نہ ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ اس قومی اسمبلی میں فیصلہ کیا گیا کہ کسی الیکشن کمیشن میں نہیں جانا، کسی عدالت میں نہیں جانا اور دھاندلی کی تحقیقات پارلیمانی کمیٹی کرے گی،کمیٹی تشکیل دی گئی تو اس کی نہ میٹنگ ہوئی اور نہ رولز بنیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کا کیس زیر سماعت ہے اور وہ 5 سال سے اس کیس کا فیصلہ نہیں کرسکے تو دھاندلی کا کیسے فیصلہ کرے گا؟ تم لوگوں سے احتساب مانگتے ہو لیکن خود احتساب دینے کو تیار نہیں، یہ پوری پارٹی و ٹبر چور ہے، قابل احتساب پارٹی پورے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا خطاب میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان بھی کہہ چکے ہیں کہ نیا عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے، سب اداروں کو طے کرنا ہوگا کہ آئین سپریم ہے، اسی کی بنیاد پر نظام کو چلانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پیر کو اپوزیشن کے اجلاس میں فیصلے ہوں گے، ان کا انتظار کر رہے ہیں لیکن پیچھے ہٹنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، میں اگر ایک سال یہاں رُکنے کو کہوں تو آپ کہیں گے کہ دو سال رُکیں گے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان حکمرانوں کو جانا ہوگا اور عوام کو ووٹ کا حق دینا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، یہاں اجتماع کرنے کے بعد یہ مطلب نہیں کہ ہمارا سفر رک گیا،ہم یہاں سے جائیں گے تو پیشرفت کے ساتھ جائیں گے، آج اسلام آباد بند ہے تو پورا پاکستان بندکرکے دکھائیں گے اور جنگ جاری رکھیں گے۔
انہوں نے ڈی چوک نہ جانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈی چوک تنگ جگہ ہے، یہاں تو کھلی جگہ تنگ پڑ گئی ہے، ہر شخص الیکشن میں عوام کی طرف دیکھنے کے بجائے کسی اور طرف دیکھ رہا ہوتا ہے، عوام کے ووٹ کو عزت دینا ہوگی اور ہمیں عوام کے ووٹ کا احترام کرنا ہوگا لیکن اس پر ڈاکے ڈالنے کی کوشش قبول نہیں کی جائے گی۔
سربراہ جے یو آئی کے مطابق آج پاکستان کا غریب صبح و شام کی روٹی کیلئے ترس رہا ہے، غریب کے بچے بھوکے سو رہے ہیں،ظالم و جابر طبقہ غریب کو جینے نہیں دے رہا، اگر غریب کو ریلیف نہیں دے سکتے تو قوم پر مسلط رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام واحد جماعت ہے جس نے مذہبی نوجوان کو اعتدال کی راہ دی اور بغاوت سے دور رکھا ہے، اشتعال دلانے والے میرے خیر خواہ نہیں ہیں، کوئی سازشی قوت نہ سمجھے آپ کے طعنوں میں آکر کوئی غلط راستہ اختیار کریں گے، ہم صلاحیت رکھتے ہیں تم ہمیں راستہ نہ دکھاؤ۔
مولانا فضل الرحمان کاکہنا تھا کہ ’آپ کہتے ہیں ڈی چوک، ڈی چوک، ڈی چوک تو وہاں خرافات کے علاوہ کچھ نہیں، ڈی چوک پر جو بدبو پھیلائی گئی، اس سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ عمران خان سن لو، یہ تحریک اور یہ سیلاب آگے بڑھتا جائے گا اور اقتدار سے اٹھاکرپھینک دے گا، ہم یہ میدان سر کرچکے ہیں اور اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھی ہوئی ہے، یہ سیلاب وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کرلے تو کوئی نہیں روک سکتا۔
مولانا فضل الرحمان نے خطاب کے آخر میں کہا کہ وعدہ کرتے ہیں پیچھے نہیں جائیں گے، یہ توپلان اے ہے، بی بھی ہے اور سی بھی ہے۔
اس سے قبل آزادی مارچ کے چوتھے روز مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت جے یو آئی (ف) کا اجلاس ہوا جس میں پارٹی کی مرکزی شوریٰ کے ارکان اور صوبوں کے امیر نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن کے بعد اگلی حکمت عملی پر حتمی مشاورت کی گئی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ اجلاس میں آزادی مارچ کے پلان بی سمیت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف سے ڈی چوک جانے کی مخالفت کے بعد کی صورت حال پر بھی غور کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں رہبر کمیٹی کی طرف سے احتجاج کو ملک گیر پھیلانے، شٹر ڈاون ہڑتال اور سڑکیں بند کرنے کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔
مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے۔
ذرائع جے یو آئی ف کے مطابق کور کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ 2 روز میں اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) بلائی جائے گی جس میں حزب اختلاف کی قیادت کو مدعو کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق سینئر رہنما اکرم درانی کو اپوزیشن جماعتوں سے رابطےکا ٹاسک دیا گیا ہے جبکہ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ کشمیرہائی وے پر آزادی مارچ کے شرکاء کا قیام جاری رہے گا۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رہائش گاہ پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اجلاس میں مشورہ دیا کہ ہمیں سنجیدگی سے مولانا کے ساتھ مذاکرات کرکے حل نکالنا چاہیے اور بات چیت کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان ابھی تک اپنے معاہدہ پر قائم ہیں تو ہمیں بات کرنی چاہیے، ہمیں صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ اس دوران حکومتی کمیٹی کے سربراہ و وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
اس موقع پر وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ تمام فورسز تیار ہیں، کسی بھی حالات سے نمٹیں گے۔ مزید پڑھیں۔۔۔
گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے مارچ کے شرکاء سے خطاب میں کہا تھا کہ ڈی چوک جانے سمیت کئی تجاویز زیرغور ہیں۔
ذرائع کے مطابق سربراہ جے یو آئی کے اعلان کے بعد زیروپوائنٹ اور ریڈ زون جانے والے راستوں پر سیکیورٹی الرٹ کردی گئی ہے، پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام نفری کو آنسوگیس کے شیل اور دیگر سامان فراہم کردیاگیا جبکہ دوسرے صوبوں سے مزید پولیس کی نفری بھی اسلام آباد پہنچ گئی ہے۔ مزید پڑھیں۔۔۔
بہاولپور میں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے شروع دن سے آزادی مارچ کی حمایت کی اور پہلے دن سے پیپلز پارٹی کا مؤقف رہا ہے کہ ہم دھرنے میں شریک نہیں ہوں گے، ہم اب جے یو آئی کے دھرنے کا حصہ نہیں ہیں لیکن اگر پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی نے فیصلے پر نظر ثانی کی تو ہم دھرنے میں شرکت کر سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ فضل الرحمان نے نہیں کہا کہ وہ خود وزیراعظم ہاؤس جا کر وزیراعظم کو گھسیٹیں گے، مولانا صاحب نے کہا تھا کہ لاکھوں لوگ وزیراعظم کو نکالیں گے۔ مزید پڑھیں۔۔۔
دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی مذاکراتی نے گزشتہ روز نیوز کانفرنس میں اپنا ایجنڈا بتا دیا تھا۔
قاسم سوری نے کہا کہ مولانا کو معاہدے کے مطابق جگہ اور سہولت فراہم کی اور ان کے ساتھ آئے لوگوں کی تمام ضروریات پوری کی گئیں، اگر مولانا معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے تو حکومت کو اقدامات کرنا پڑیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے مولانا معاہدہ نہیں توڑیں گے، احتجاج اپوزیشن کا آئینی حق ہے لیکن مولانا اپنی تقریر میں ذومعنی باتیں کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ ریڈ زون میں سفارتکار رہتے ہیں، احتیاطی تدابیر کے لیے ریڈ زون کو سیل کیا گیا، اسلام آباد انتظامیہ نے سیکیورٹی کے پیش نظر انتظامات کیے ہیں، آزادی مارچ کو بھی پوری سیکیورٹی دی گئی ہے۔
قاسم سوری نے کہا کہ مولانا کا اپنا بیٹا اسمبلی میں ہے، جو اپوزیشن کا نمائندہ ہے، مسئلہ سڑکوں پر حل نہیں ہو گا، مولانا اسمبلی میں اپنی شکایات پیش کریں۔
یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کا آزادی مارچ ایچ 9 گراؤنڈ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہوا تھا جو سکھر، ملتان، لاہور اور گجرانوالہ سے ہوتا ہوا 31 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا تھا۔