13 نومبر ، 2019
سیاسی گمراہی پھیلارہے ہیں وہ لوگ جو حکومتی اقدامات، مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے، بلاول بھٹو کے اچانک شریف بن جانے اور میاں شہباز شریف کی شریفانہ سیاست کو الگ الگ رکھ کر تجزیہ کررہے ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے مولانا کو تنہا چھوڑ دیا حالانکہ اب مولانا نے ان دونوں کا کام آسان کردیا اور ماضی قریب میں ان دونوں نے مولانا کا کام آسان کردیا تھا۔ اور تو اور اسفند یار ولی خان اور محمود خان اچکزئی وغیرہ بھی مولانا کے دھرنے سے مستفید ہورہے ہیں اور جونہی معاملات حتمی موڑ پر پہنچیں گے تو مولانا فضل الرحمٰن بھی دھرنا ختم کردیں گے۔
دوسری طرف میاں نواز شریف کی بیماری اللّٰہ کی طرف سے ہے اور ان کو عدالتوں سے ضمانت میرٹ پر ملی ہے لیکن میاں صاحب کی بیماری کی سنگینی نے میاں شہباز شریف کا کام بھی آسان کردیا، بلاول بھٹو کا بھی اور مولانا کا بھی۔ اس بیماری نے مشکل میں ڈال دیا ہے تو صرف اور صرف عمران خان کو۔ مختصر یہ کہ بیمار نواز شریف ہوئے ہیں، خطرہ نواز شریف کی زندگی کو لاحق ہوا لیکن جیت شہباز شریف کی سیاست اور بیانیے کی ہوئی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے بیانیے کا اختلاف شروع دن سے موجود تھا۔ گزشتہ انتخابات سے قبل چوہدری نثار علی خان، شہباز شریف کے جبکہ احسن اقبال اور خواجہ آصف میاں نواز شریف کے بیانیے کے قائل تھے۔ انتخابات کے نتیجے میں جب مسلم لیگ(ن) کو مار پڑی تو شہباز شریف اپنے بھائی اور بھتیجی کو طعنہ دینے کی پوزیشن میں آگئے۔
گھر میں جو بحث مباحثہ ہوا، اس کے نتیجے میں شہباز شریف کو اپنا بیانیہ آزمانے کا موقع دیا گیا اور اسی اسکرپٹ کے تحت میاں نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ خاموش ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں اعتماد سازی کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈیل تک پہنچنے کے لئے ایک دوسرے کو ڈھیل دی جانے لگی۔
شہباز شریف کو عمران خان کی مرضی کے خلاف پارلیمنٹ میں لایا گیا اور پی اے سی کا چیئرمین بنوایا گیا لیکن جب عمران خان کو یہ احساس ہوگیا کہ شہباز شریف کے معاملات حتمی مراحل کی طرف جارہے ہیں تو انہوں نے ایسے اقدامات اٹھائے کہ جن کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) مشتعل ہوئی اور اعتماد سازی کے عمل کو نقصان پہنچا ۔
دوسری طرف میاں شہباز شریف اپنے بھائی اور بھتیجی کو حسبِ وعدہ بیرون ملک بھجوانے پر آمادہ نہ کرسکے چنانچہ فریقِ اول شہباز شریف سے ناراض ہوگیا کہ فائدہ اٹھانے کے باوجود وہ بھائی اور بھتیجی سے بات نہ منوا سکے اور شہباز شریف فریقِ اول سے شکوہ کرتے رہے کہ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد انتقام کا سلسلہ ان کے بچوں تک بھی دراز کیا گیا اور یہ کہ انہیں اپنے بھائی سے بات کرنے کے بھی قابل نہیں چھوڑا گیا۔
اس دوران ملک میں چند ماہ کے لئے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ عمران خان کو کھلی چھٹی دینا پڑی چنانچہ انہوں نے اس وقت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نیب کے ذریعے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو خوب دیوار سے لگا دیا۔
چنانچہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری نے بھی انقلابی بیانیہ اپنا لیا۔ پہلے مولانا فضل الرحمٰن میدان میں نکلنے کا کہتے رہے لیکن میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نکلنے کو تیار نہ تھے جبکہ اب ان دونوں نے مولانا کو نکلنے کے لئے منتیں شروع کردیں۔ چنانچہ مولانا میدان میں کود پڑے۔ اپوزیشن مولانا کی قیادت میں احتجاج کی تیاریاں کرنے لگی۔
چنانچہ جب مولانا نے آزادی مارچ کا اعلان کیا تو شروع میں پی پی اور مسلم لیگ(ن) یہ تاثر دینے لگیں کہ وہ بھی ساتھ دیں گی۔ اپوزیشن کے اس طرح کے احتجاج نے اقتدار کے ایوانوں کو ہلا دیا تو شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے بھی رابطے بڑھ گئے۔ ان کے ذریعے مولانا کو بتایا جاتا رہا کہ اگر وہ چند ماہ صبر کرلیں تو تمام اپوزیشن والوں کے مسئلے حل ہو جائیں گے۔
مولانا نے ان کو اس بنیاد پر قائل کردیا کہ ان کے مارچ کے نتیجے میں ان کی امیدوں پر پانی نہیں پھر سکتا بلکہ اس کے دبائو کی وجہ سے اپوزیشن کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے مولانا کے مارچ کی مخالفت بھی نہیں کی اور مکمل ساتھ بھی نہیں دیا۔
چنانچہ جوں جوں مولانا اسلام آباد کی طرف بڑھتے گئے توں توں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی اہمیت بڑھتی گئی۔ مکرر عرض ہے کہ میاں نواز شریف کی بیماری اللّٰہ کی طرف سے ہے اور عدالتی فیصلوں کا میاں شہباز شریف کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن بہرحال ان کی بیماری اور اس کی سنگینی نے اپوزیشن اور بالخصوص میاں شہباز شریف کے مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اقتدار کے ایوانوں میں یہ احساس شدت اختیار کر گیا کہ اگر خدانخواستہ میاں نواز شریف کی زندگی کو کچھ ہوا تو نہ صرف پنجاب کو بھٹو مل جائے گا بلکہ الزام سے بھی حکمران بچ نہیں سکیں گے۔ چنانچہ ایک طرف حکمران طبقہ ان کو باہر بھجوانے کے لئے سرگرم ہوگیا اور دوسری طرف اہلِ خانہ ان کی زندگی کی خاطر میاں صاحب کو مجبور کرنے لگے۔
چنانچہ میاں شہباز شریف جو کام پچھلی مرتبہ نہیں کرواسکے تھے، وہ اب کی بار میاں صاحب کی صحت کی وجہ سے خود بخود ہوگیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کی دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی کے معاملات بھی درست ہونے لگے۔
چنانچہ اب جہاں یہ بات یقینی ہے کہ 2020 تبدیلی کا سال ہے اور پہلی سہ ماہی اپوزیشن کے لئے اچھی اور عمران خان کے لئے بری خبروں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، وہاں جب یہ معاملات حتمی شکل اختیار کرلیں گے تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے مولانا سے درخواست کی جائے گی کہ چونکہ سب کے مسئلے حل ہو گئے ہیں اور تبدیلی میں تبدیلی کا راستہ ہموار ہو گیا ہے، اس لئے وہ دھرنا ختم کردیں۔
مولانا خود بھی اپنے حلیفوں کی کامیابی کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ جو کچھ طے پایا ہے یا پائے گا، اس سے صرف ان دو بڑی جماعتوں کے نہیں تمام اپوزیشن کے مسائل حل ہوں گے۔