15 نومبر ، 2019
لاہور: سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی جانب سے دائر درخواست پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔
درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر لاہور ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست قابل سماعت ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت یہیں ہوگی۔ فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
وفاقی حکومت اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپنے تحریری جواب میں عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا، جواب میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں۔
وفاقی حکومت نے تحریری جواب میں انڈیمنٹی بانڈ کے بغیر نوازشریف کانام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کی اور شہباز شریف کی درخواست مسترد کرنے اور انڈیمنٹی بانڈ کی شر ط لاگو رکھنے کی استدعاکی تھی۔
خیال رہے کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط اجازت کے خلاف مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں گزشتہ روز جمعرات کو درخواست دائر کی گئی تھی جس پر سماعت جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔
گزشتہ روز ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک روز کی مہلت طلب کرنے پر عدالت نے سماعت اگلے روز تک ملتوی کردی تھی۔
نیب اور حکومت نے تحریری جواب جمع کرایا
جمعہ کے روز لاہور ہائیکورٹ نے ایک بار پھر درخواست پر سماعت کا آغاز کیا جس دوران قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی حکومت کی جانب سے تحریری جواب عدالت میں جمع کرایا گیا۔
عدالت نے شہبازشریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو جواب کے معائنے کے لیے وقت کی ضرورت ہے؟ اس پر وکلا نے جواب پڑھنے کا وقت مانگا جس پر عدالت نے کیس کی سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کردی۔
عدالت نے حکومت اور نیب کے جواب کی کاپی درخواست گزار کے وکلاء کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔
حکومت نے شہبازشریف کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی
حکومت کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب 45 اور نیب کا جواب 4 صفحات پر مشتمل ہے۔
حکومت نے اپنے جواب میں شہبازشریف کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہےکہ نواز شریف کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسز زیر سماعت ہیں، ان کا نام نیب کے کہنے پر ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔
حکومت نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کو اس درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں ہے اور شہبازشریف کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔
شہباز شریف کے وکیل نے مشرف اور ایان علی کی مثالیں دے دیں
لاہور ہائیکورٹ میں شہبازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مثال موجود ہے، ماڈل ایان علی کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں مشرف کیس کی مثال دی جاسکتی ہے ،آپ کا درخواست گزار تو سزا یافتہ ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ درخواست کیسے قابل سماعت نہیں ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر کیس کو اس کے حالات کے مطابق دیکھا جائے گا، احتساب عدالت کے جج نے سزا دی اور اس کیخلاف اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔
سیکیورٹی بانڈ کی شرط لاگو رکھی جائے: حکومتی مؤقف
حکومت نے اپنے جواب میں استدعا کی ہےکہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں اس لیے انہیں بغیر سیکیورٹی بانڈز کے اجازت نہیں دی جا سکتی لہٰذا سیکیورٹی بانڈ کی شرط کو لاگو رکھا جائے اور عدالت اس درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنایا کہ درخواست قابل سماعت ہے اور اس کی مزید سماعت ہفتے کو پھر ہوگی۔ صبح 11 بجے درخواست پر سماعت شروع ہوگی۔
گزشتہ روز دوران سماعت درخواست گزار شہبازشریف کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کے میڈیکل ٹیسٹ کروانے ہیں جن کی سہولت پاکستان میں میسر نہیں،سرکاری میڈیکل بورڈ نے بھی علاج کے لیے بیرون ملک جانے کا مشورہ دیا۔ وفاقی کابینہ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے مشروط اجازت دی۔
عدالت عالیہ کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا سفارشات قومی احتساب بیورو (نیب) اسلام آباد یا نیب لاہور نے دی ہیں؟ کیا شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل پر ہے؟
جس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا نام عدالتی حکم پر ای سی ایل سے نکالا جاچکا ہے،نواز شریف کےخلاف نیب لاہور میں کیسز ہیں،ایون فیلڈ ریفرنس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے میرٹ پر سزا معطل کرکے ضمانت منظور کی اور عدالت نے ضمانت منظور کرتے وقت کوئی شرط عائد نہیں کی تھی۔
کیا ای سی ایل آرڈیننس وفاق کو اختیار دیتا ہے کہ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے؟ عدالت
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں ہوتاتو عدالت اپنا دائرہ اختیار استعمال کرے، ریاست کا اس معاملے میں کوئی تعلق نہیں ہے، ریاست کہاں سے آ گئی؟
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل آرڈیننس وفاق کو اختیار دیتا ہے کہ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے؟
وکیل امجد پرویز کا کہناتھا کہ احتساب عدالت کے حکم کی سزا معطل ہو چکی ہےجس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں سزا معطل ہوئی ہے جرمانہ معطل نہیں ہوا۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ حکومت نے جو ضمانت مانگی ہے کیا یہ وہ رقم ہے جو احتساب عدالت نے جرمانہ کیاتھا؟کیا ای سی ایل آرڈیننس وفاق کو اختیار دیتا ہے کہ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے؟ کیا قانون میں وہ شرائط ہیں جو نواز شریف پرعائد کی گئی ہیں، نواز شریف کا نام کس نیب آفس کے کہنے پر ای سی ایل میں ڈالا گیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دینے کے لیے کل تک کی مہلت مانگ لی جس کے بعد کیس کی سماعت اگلے روز کے لیے ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے گزشتہ روز نواز شریف کو علاج کے غرض سے 4 ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔
وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق ’نواز شریف کی بیرون ملک روانگی اس بات سے مشروط ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف 7 یا ساڑھے 7 ارب روپے کے پیشگی ازالہ بانڈ جمع کرادیتے ہیں تو وہ باہر جاسکتے ہیں اور اس کا دورانیہ 4 ہفتے ہوگا جو قابل توسیع ہے‘۔