24 نومبر ، 2019
وزیراعظم عمران خان کوئی تاجر یا صنعتکار نہ تھے صرف وہ اپنے رفقا پر انحصار کر رہے تھے جو خود بڑے صنعت کار تھے مثلاً رزاق داؤد گروپ کے CEO یا CFO تھے۔ اس کے لئے انہوں نے اسد عمر پر بھروسہ کیا کہ آئی ایم ایف سے کیسے نمٹا جائے۔ تاجر برادری اور صنعتی نظام کو کیسے نافذ کیا جائے اور معیشت کیسے ٹھیک کی جائے۔ ان کے سب ساتھیوں نے ان کو یہ کہہ رکھا تھا کہ جب ہمیں حکومت ملے گی تو ہم سب ٹھیک کر لیں گے۔ کیسے ٹھیک کریں گے، وہ خود بھی اس سے نابلد نکلے اور معیشت صرف نیچے کی طرف جاتی رہی اور وہ کہتے رہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
جب معیشت بالکل بیٹھ گئی تو آئی ایم ایف نے ان کی بے بسی اور نااہلی سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور طرح طرح کی شرائط مسلط کر دیں اور تو اور معیشت کو اٹھانے کا ٹھیکہ بھی خود لے لیا اور اپنے کارندے بھجوا دئیے۔
بظاہر اعداد و شمار سے کھلواڑ شروع ہو چکا ہے، قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ ملک اب بہتری کی طرف رواں دواں ہو چکا ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف عمران خان خود روایتی سیاستدان بھی نہیں تھے، تو غلطیاں تو ہونا تھیں۔ ڈیڑھ درجن سے زائد وہ چلے کارتوس جو ہر آنے والے حکمرانوں کی صفیں توڑ کر پہلی صف میں شامل ہو جاتے ہیں، وہ سب کے سب ان کی پناہ گاہ میں جمع ہو گئے، اب وہ دن رات توڑ جوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور کچھ آپس کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور کچھ تو حزبِ اختلاف سے الجھنے کا مشورہ دیتے رہے مثلاََ مولانا فضل الرحمٰن کو ہرگز دھرنا نہ دینے دیں یا یہاں نہیں، وہاں دھرنا دینے دیں اور سخت الفاظ کا تبادلہ کرتے رہے۔
صرف 50روپے کے اسٹامپ میں میاں نواز شریف کی جان چھوٹ گئی
معیشت اور مہنگائی دونوں نے عوام کو PTI کی حکومت سے بیزار کر رکھا ہے اور کچھ وزرا کہتے رہے کہ نواز شریف کا نام ECL سے نہ نکالیں یا بغیر بانڈز ہرگز نہ جانے دیں۔ ورنہ یار لوگ ڈیل کا نام دے کر چڑائیں گے۔ پھر عدلیہ کو بیچ میں مداخلت کرنا پڑی اور صرف 50روپے کے اسٹامپ میں میاں نواز شریف کی جان چھوٹ گئی اور وہ علاج کے لئے لندن روانہ ہو گئے۔ واپس آئیں گے یا نہیں، یہ ابھی کسی کو پتا نہیں۔
پھر چوہدری برادران میدان میں اترے تو دونوں معاملات ٹھنڈے پڑے، ورنہ حکومت اور حزب اختلاف میں پنگ پانگ بال کی طرح خطرناک حملے جاری تھے۔ نیز اعتزاز احسن کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ پنجاب کے لئے قانون کچھ اور ہے اور سندھ کے لئے کچھ اور۔ یعنی نواز شریف کو علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت مل گئی اور ان کے لیڈر آصف علی زرداری کو باہر تو کجا کراچی میں بھی علاج کرانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ڈپارٹمنٹل سطح پر کرکٹ کو ختم کرکے صوبائی سطح کا نیا ڈھانچہ کرکٹ کو ختم کرنے کی بڑی سازش
جب سے PTIحکومت آئی ہے کھیلوں کے نظام میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ اس وقت کرکٹ کے کرتا دھرتا کا شمار بھی عمران خان کے ذاتی دوستوں میں بتایا جاتا ہے۔ جن کو ڈھونڈ کر PCBکا سربراہ بنا دیا گیا۔ پہلے درجنوں ڈپارٹمنٹ میں کرکٹ ہوتی تھی، سرکاری نیم سرکاری اور تجارتی اداروں میں پورے ملک سے لڑکے کرکٹ کھیلتے رہتے تھے۔ سارا سال ان کو معقول تنخواہیں ملتی تھیں اور صوبائی، مرکزی سطح پر الگ کرکٹ کا نظام تھا۔ اب ڈپارٹمنٹل سطح پر تمام کرکٹ کو ختم کرکے صرف صوبائی سطح پر نیا ڈھانچہ متعارف کرایا گیا جو کرکٹ کو ختم کرنے کی بڑی سازش ہے اور مزید تباہ کرنے کے لئے تنخواہیں اور مراعات اتنی کم رکھی ہیں کہ شاید ہی کوئی اس پر گزارا کر سکے۔
ہاکی کے کھیل کی طرح یہ کرکٹ کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ کھلاڑیوں میں بہت بے چینی پیدا ہو چکی ہے، ہر صوبے کا بجٹ الگ ہوتا ہے، پھر صوبوں کی آمدنی اور آبادی کی شرح مختلف ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے صوبے کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ ماضی کی طرح پنجاب کی نسبت یہاں بھی سندھ کے کھلاڑیوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
کپتان سرفراز کو ہٹا کر پھر نئے سلیکٹرز صاحبان اپنے ساتھ 5 نئے کھلاڑیوں سے تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور وہی ہوا کہ پہلی T-20سیریز میں 2میچ ہار گئے اور ایک میچ اللہ کی مہربانی سے بارش نے بچا لیا۔ آسٹریلیا جیسے ملک جہاں ہم آج تک کوئی ٹیسٹ نہیں جیت سکے، 9کے 9ٹیسٹ ہار کر اور 2میچ ڈرا کرکے پھر قوم کا سر جھکانا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان! آپ کو کرکٹ کا پورا تجربہ تھا اور کامیاب کپتان بھی رہے ہیں۔ آپ نے آسٹریلیا ٹیم بھیجتے ہوئے اپنا تجربہ کیوں سلیکٹر حضرات سے شیئر نہیں کیا۔فرسٹ کلاس کرکٹ میں 500وکٹیں لینے والا طابش نواز اور رنز کے انبار لگانے والا فواد عالم سلیکٹروں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ کم از کم آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے سامنے تو غیر تجربہ کار کھلاڑیوں سے اجتناب کرنا چاہئے تھا۔ وہاں کے موسم اور وکٹوں کی مناسبت سے کھلاڑی چننا چاہئے تھے، ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟
کل جب ٹیم ہار کر آئے گی تو اس کی آپ کے پاس کیا تاویلیں ہوں گی۔ چلتے چلتے ایک حالیہ سیریز T-10کے نام سے پہلی مرتبہ ICCسے منظوری کے بعد 14نومبر سے ابوظہبی میں شروع کی گئی۔
پوری دنیا کی ٹیمیں اور کھلاڑی اس میں حصہ لے رہے تھے۔ PCBنے پہلے کھلاڑیوں کو NOCجاری کر دیے اور پھر راتوں رات منسوخ کر دیے۔ اس سنگین غلطی کا نوٹس لینا چاہئے۔ ابوظہبی کی حکومت بھی ہمارے اس یکطرفہ فیصلے سے ناخوش ہے۔ اس کی وجہ ہم دبئی اور شارجہ میں تو حصہ لیتے رہے مگر پہلی مرتبہ ابوظہبی کے پہلے تجربہ T-10کو سراہنے کے بجائے نظر انداز کرنا ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی اور تجربہ حاصل کرنے سے دور رکھنے کے موافق ہے، جو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔