03 دسمبر ، 2019
اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کی وجوہات پر مبنی تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی لارجر بنچ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کا 24 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
عدالتی فیصلے میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرنے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کےتفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ اور مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کی جانب سے دائر دونوں ہی درخواستوں میں فیئر ٹرائل کا نکتہ اٹھایا گیا۔
وفاقی حکومت نے حیرت انگیز طور پردلائل دیے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل میں غلطیاں ہیں اور شکایت بھی غیر مجاز فرد نے داخل کرائی۔
فیصلے کے مطابق سنگین غداری کیس کے ٹرائل میں صرف ملزم واحد فریق نہیں بلکہ وفاقی حکومت بھی اتنی ہی اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔
وفاقی حکومت نے 12اکتوبر 1999 کو آئین سے انحراف کے بجائے 3 نومبر کے اقدام پر کارروائی کا آغاز کیا جس کا ہدف عدلیہ تھی اور سپریم کورٹ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ڈی نوٹیفائی کی گئی پراسیکیوشن ٹیم کو عدالت میں پیش ہو کر دلائل دینے کا اختیار نہیں تھا، وفاقی حکومت کو پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا مناسب وقت ملنا چاہیے تھا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پرویز مشرف کو سرنڈر کر کے بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ملنا چاہیے تھا، دفاع کا حق ختم کرنے سے پہلے یہ اطمینان کرنا ضروری تھا کہ مشرف رضاکارانہ طور پر مرضی سے غیر حاضر ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو سابق صدر پرویز مشرف کےخلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے خلاف پرویز مشرف سمیت وفاقی وزارت داخلہ نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا محفوظ فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا تاہم اس حوالے سے خصوصی عدالت کے جج جسٹس نذر اکبر نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند نہیں ، ہم سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔
سربراہ خصوصی عدالت جسٹس وقار سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کے احکامات پر تبصرہ نہیں کریں گے لیکن 5 دسمبر تک موقع دے رہے ہیں، پرویز مشرف اپنا بیان کسی بھی دن ریکارڈ کرا لیں۔
سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔
مقدمے میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 جج تبدیل ہوئے،عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔
اب ایک بار پھر عدالت نے پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے 5 دسمبر تک کا وقت دیا ہے۔