05 دسمبر ، 2019
وفاق میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دی۔
بی این پی مینگل نے آواران میں 4 خواتین کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بی این پی مینگل اور سابقہ فاٹا ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دیا۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ انہوں نے پہلے بھی کئی حکومتوں سے استعفیٰ دیا اب بھی حکومت سے الگ ہوسکتے ہیں۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے خواتین کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے وزیر داخلہ کو ایوان میں طلب کرلیا۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو احسن اقبال نے چار اراکین کے پروڈکشن آرڈرز جاری ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہونے اور رانا ثناء اللہ کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ ہونے کا مسئلہ اٹھایا۔
احسن اقبال نے کہا کہ پِک اینڈ چُوز نہیں چلے گا ہم اس وقت تک سیشن کا بائیکاٹ کریں گے جب تک اسپیکر کے احکامات پر عمل نہیں ہوگا۔
اس موقع پر حکومتی اتحادی بی این پی مینگل کے سربراہ سرداراختر مینگل نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ بلوچوں کے قاتل پرویزمشرف کے مقدمات کو تالے لگائے جارہے ہیں اگر ہم اصولوں اور عزت کے لیے پچھلی حکومتوں سے الگ ہوسکتے ہیں تو اس حکومت سے بھی الگ ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے چار بلوچ خواتین کی رہائی تک اسپیکر ڈائس کے سامنے روزانہ دھرنا دینے کا اعلان بھی کیا۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے خواتین کی رہائی کی رولنگ دیتے ہوئے کل وزیر داخلہ کو ایوان میں طلب کرلیا۔
بی این پی مینگل اور سابقہ فاٹا اراکین کے دھرنے کے ساتھ ہی اپوزیشن نے پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد نہ ہونے کے خلاف واک آؤٹ کردیا۔
عبدالقادر پٹیل نے کورم کی نشاندہی کردی اور کورم پورا نہ نکلا تو اجلاس جمعہ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔