شریف خاندان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی صحت بہتر نہیں ہورہی، مکمل علاج کے لیے سابق وزیراعظم کو امریکا لےجانا پڑسکتا ہے۔
ذرائع شریف خاندان نے بتایا ہے کہ دماغ کو خون سپلائی کرنے والی شریان کی رکاوٹ دور کرنے کی ٹیکنالوجی برطانیہ میں بھی دستیاب نہیں ہے اس لیے نواز شریف کو علاج کے لیے امریکا لے جایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف 19 نومبر سے علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں۔
گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم کے طبی معائنے کے بعد ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پلیٹیلیٹس کاؤنٹ غیر مستحکم ہیں جنہیں ادویات کے ذریعے خاص لیول پر رکھا جا رہا ہے۔
پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی (پی ای ٹی) اسکین کی رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے دائیں بغل (رائٹ ایگزیلا) میں ایک سے زائد گلٹیاں ہیں جو بڑی ہو چکی ہیں، مرض کی مزید تشخیص جاری ہے۔
ڈاکٹر عدنان کا کہنا تھا کہ دماغ کو خون منتقل کرنے والی شریان کے علاج کے لیے بھی ویسکولر سرجن کی خدمات لی ہیں، ویسکولر سرجن دوبارہ نوازشریف کا معائنہ کریں گے جس میں دیکھا جائے گا کہ نواز شریف کے دماغ کی شریان کی سرجری کی جائے یا اسٹنٹ ڈالا جائے۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم کی صحت سے متعلق ان کے بیٹے حسین نواز کا کہنا تھا کہ ان کی طبیعت میں بہتری کی کوئی آثار نظر نہیں آئے، نواز شریف کی طبیعت جیسی کل تھی ویسی ہی آج بھی ہے، والد کو متعدد بار مشورہ دیاکہ امریکا سے علاج کروائیں۔
نوازشریف کیس میں کب کیا ہوا؟
21 اور 22 اکتوبر 2019 کی درمیانی شب نواز شریف کی طبیعت خراب ہوئی اور اسپتال منتقل کیاگیا۔
25 اکتوبر، چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیاد پر نواز شریف کی ضمانت منظور ہوئی۔
26 اکتوبر، العزيزيہ ریفرنس میں انسانی بنیادوں پر نوازشریف کی عبوری ضمانت منظور ہوئی۔
26 اکتوبر، نواز شریف کو ہلکا ہارٹ اٹیک ہوا، وزیرصحت پنجاب یاسمین راشد نے تصدیق کی۔
29 اکتوبر، العزيزيہ ریفرنس میں طبی بنیاد پر نوازشریف کی 2 ماہ کے لیے سزا معطل کردی گئی
نوازشریف سروسزاس۔پتال سے ڈسچارج ہوئے، جاتی امرا میں آئی سی یوبناکرمنتقل کیا گیا۔
8 نومبر، شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی۔
12 نومبر، وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی۔
14 نومبر، ن لیگ نے انڈيمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی۔
16 نومبر، لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔
19 نومبر، نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔
20 نومبر، لندن کے گائز اسپتال میں نواز شریف کا 4 گھنٹے تک طبی معائنہ کیا گیا۔
23 نومبر، لندن کے یونیورسٹی اسپتال میں دل کے ڈاکٹر لارنس نے نواز شریف کا طبی معائنہ کیا۔
25 نومبر، لندن برج اسپتال میں نواز شریف کے دل کا معائنہ کیا گیاجہاں ڈاکٹروں نے سابق وزیراعظم کو اسپتال میں داخل ہونے کی تجویز دی۔
28 نومبر، لندن کے برج اسپتال نواز شریف کاپوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی (پی ای ٹی) اسکین ہوا۔
29 نومبر، سابق وزیراعظم کا لندن برج کے قریب اسپتال میں طبی معائنہ ہونا تھا تاہم وہاں حملے کے باعث وہ واپس گھر روانہ ہوگئے تھے۔
2 دسمبر، لندن کے گائز اسپتال میں دل اور گردے کے ماہرین نے نواز شریف کا معائنہ کیا۔