14 دسمبر ، 2019
نئی دہلی: متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووندکے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون بن گیا۔
متنازع شہریت بل 9 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔
مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سمیت 6 بھارتی ریاستوں نے متنازع قانون نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے اور شہریت بل کی مخالفت میں بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
بھارتی ریاست آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 3 مظاہرین ہلاک ہوئے جب کہ بھارتی پولیس نے نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں متنازع بل کی مخالفت میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر آنسو گیس سے شیلنگ کی اور لاٹھی جارچ کیا، بھارتی پولیس نے مظاہرہ کرنے والے 50 سے زائد طلبہ کو گرفتار بھی کر لیا۔
کشیدہ حالات کے باعث بھارت کے شہر گوہاٹی میں کرفیو نافذ کر کے فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے اور 10 اضلاع میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
متنازع شہریت بل کے خلاف بھارت بھر میں مظاہروں کے پیش نظر جاپانی وز یراعظم شنزو ابے نے 15 دسمبر سے شیڈول دورہ بھارت ملتوی کر دیا جب کہ بنگلا دیش کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ بھی بھارت کا دورہ منسوخ کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق جیرمی لارنس نے بھی بھارت کے متنازع شہریت بل کے امتیازی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جیرمی لارنس کا کہنا ہے کہ بل میں مسلم مہاجرین کو تحفظ نہیں دیا گیا ہے، ترمیم سے بھارتی آئین میں موجود قانونی مساوات کو نقصان پہنچے گا۔
امریکا نے بھی اپنے شہریوں کو بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں جانے کے حوالے سے ٹریول الرٹ جاری کر دیا ہے۔