غزوہ بدر.... حق و باطل کا پہلا معرکہ قسط نمبر(5)

فوٹو: فائل

بالآخر ابو جہل نے جنگ کا طبل بجادیا ۔ حضرت عمر ؓ  بن خطاب کے آزاد کردہ غلام، حضرت مہجعؓ صفوں سے نکلے، لیکن اُنہیں عامر بن الحضری نے شہید کر دیا۔ عتبہ بن ربیعہ قریش کا ایک بارُعب اور نام وَر سردار تھا، اپنے بھائی اور بیٹے کے ساتھ میدانِ جنگ میں اُترا اور مسلمانوں کو للکارا۔ وہ سُرخ اونٹ پر سوار تھا اور رواج کے مطابق سینے پر شُتر مرغ کے پَر لگا رکھے تھے۔

 مسلمانوں کی جانب سے انصار کے تین نوجوان میدان میں آئے۔ جب وہ قریب پہنچے، تو عتبہ نے کہا’’ تم کون ہو ؟‘‘ اُنہوں نےجواب دیا’’ ہم اہلِ مدینہ میں سے ہیں۔‘‘ اس پر عتبہ نے متکبّرانہ لہجے میں کہا’’ ہمیں تم سے غرض نہیں، تم واپس جاؤ۔‘‘ پھر بلند آواز میں بولا’’ اے محمّد( صلی اللہ علیہ وسلم)!ہم سے مقابلے کے لیے ہماری قوم کے لوگ بھیجو، جو ہمارے شایانِ شان ہوں۔‘‘اس پر آپﷺ نے اپنے چچا، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ کو میدان میں بھیجا۔‘‘اور پھر بدر کے آسمان پر روشن سورج نے چمکتی تلواروں کی جھنکار میں دیکھا کہ قریش کے سب سے بارُعب سردار عتبہ اور اُس کے جواں سال بیٹے، ولید کے لاشے سَروں کے بغیر زمین پر پڑے تھے۔

حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ کی نظر حضرت عبیدہؓ پر پڑی، جو زخمی ہو چُکے تھے، چناں چہ دونوں شبیہ پر ٹوٹ پڑے۔ اُسے واصلِ جہنّم کر کے حضرت عبیدہ ؓ کو اُٹھا کر رسول اللہﷺ کے پاس لے آئے۔ حضرت عبیدہ ؓنے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! اگر اِس زخم سے میری موت واقع ہو گئی، تو کیا مجھے شہادت نصیب ہو گی؟‘‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا’’ ہاں! تم شہادت پاؤ گے۔‘‘( جنگ کے بعد واپسی پر وادیٔ صفرا میں اُن کا انتقال ہو گیا)۔کفّارِ مکّہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اُن کے تین انتہائی تجربے کار اور بہترین شہ سوار یوں لمحوں میں زمیں بوس ہو جائیں گے۔ وہ غصّے سے پاگل ہوگئے اور پوری قوّت سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔

نبیﷺ کی دُعا اور اللہ کی مدد

رسولﷺ نے اپنے ربّ کے سامنے دستِ دُعا دراز فرما دیئے۔آنکھوں سے اشک رواں تھے، ریشِ مبارک آنسوئوں سے تَر ہو گئی۔ درد بھرے لہجے میں خالقِ حقیقی کو پکارا’’ اے میرے ربّ! تُو اچھی طرح واقف ہے۔ اگر آج یہ مُٹھی بھر جماعت بھی ختم ہو گئی، تو قیامت تک دنیا میں کوئی تیرا نام لیوا نہ رہے گا۔‘‘دُعا مانگتے ہوئے کندھوں سے چادر گر پڑی۔

سیّدنا ابوبکرؓ نے چادر اُٹھا کر فرمایا ’’اے اللہ کے رسولﷺ!بس فرمایئے۔ اللہ، آپﷺ کی دُعا ضرور قبول فرمائے گا۔‘‘ رحمتِ الہٰی جوش میں آئی، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا :جائو، میرے نبیﷺ کو میرا پیغام پہنچا دو کہ ’’ مَیں تمہارے ساتھ ہوں، تم مسلمانوں کے دل ثابت رکھو، مَیں کافروں کے دِلوں میں دہشت ڈال دوں گا۔ سو، گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور پر مارو‘‘( سورۃ الانفال 12)۔’’ (اے نبیؐ)مَیں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں‘‘( سورۃ الانفال 9)۔

حضرت ابنِ عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے بدر کے دن فرمایا’’ یہ جبرائیل ؑ ہیں، جو اپنے گھوڑے کا سَر تھامے ہوئے اور لڑائی کے ہتھیار لگائے ہوئے ہیں‘‘(صحیح بخاری)۔فرشتوں کے بھیجنے میں کیا حکمت تھی؟ اللہ تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران میں فرمایا ہے کہ’’ ہم نے فرشتے اس لیے بھیجے کہ تمہارے دِلوں کو خوشی، اطمینان، تسکین و تسلّی ہو اور تمہارے قلوب کو تقویّت ملے۔‘‘ بعض صحابہؓ نے فرشتوں کو دیکھا اور بعض نے تو اُن کی آواز بھی سُنی۔ رسول اللہﷺ سائبان سے باہر تشریف لائے، تو زرہ زیب تن کیے ہوئے تھے اور زبانِ مبارک پر یہ آیت تھی، ترجمہ’’ عَن قریب یہ لشکر شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا‘‘(سورۃ القمر 45)۔ حضرت جبرائیل ؑنے عرض کیا’’ یارسولﷺ! ایک مُٹھی خاک دشمن کے لشکر کی طرف پھینک دیں۔‘‘ کفّار میں کوئی ایسا نہ تھا، جس کی آنکھوں، ناک، منہ اور چہرے پر مٹّی نہ پڑی ہو،جس سے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔

یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک اور غیبی مدد تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’جب تم نے مٹّی پھینکی، تو درحقیقت وہ تم نے نہیں، بلکہ اللہ نے پھینکی‘‘(سورۃ الانفال 17:) ۔حضرت عکرمہ ؓ سے مروی ہے کہ اُس دن جب کسی کا سر کٹ کر گرتا، تو پتا ہی نہ چلتا کہ کس نے کاٹاہے۔اگر کسی مشرک کا ہاتھ یا پائوں کٹ جاتا، تو کٹ کر گرتے ہوئے تو ہم دیکھتے، لیکن کاٹنے والا نظر نہ آتا۔‘‘

ابو جہل کا انجام

اُمیہ بن خلف قریش کا نام وَر سردار تھا۔ اُس کے پاس بہت سے غلام تھے، جن میں حضرت بلالؓ بھی شامل تھے۔ یہ شخص قبولِ اسلام پر اُن پر انسانیت سوز مظالم ڈھایا کرتا تھا۔ اُمیہ اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑے جان بچانے کے لیے بھاگنے کا منتظر تھا کہ اُس کی نظر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ پر پڑی، جو میدانِ جنگ سے مشرکین کی زرہیں جمع کر کے لے جا رہے تھے۔ اُمیہ نے اُن سے جان بچانے کی درخواست کی۔ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے اپنی زرہیں پھینکیں اور دونوں کو اپنی تحویل میں لے کر چل پڑے۔ اتفاق سے حضرت بلال ؓ کی اُمیہ پر نظر پڑ گئی۔ اُنہوں نے انصار کے چند نوجوانوں کو ساتھ لیا اور اُس پر حملہ کر دیا۔ پہلے اُمیہ کے بیٹے کو قتل کیا اور پھر اُمیہ کو۔

ابو جہل اپنے غلاموں کے جمگھٹے میں آگے بڑھا اور چیخ چیخ کر مشرکین کے حوصلے بڑھانے لگا۔ ایک ایک کو پکڑ کر کہتا’’ لات وعُزیٰ کی قسم! جیت ہماری ہوگی۔‘‘ لیکن کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو جہل کا غرور خاک میں مل گیا اور وہ شدید زخمی ہو کر گھوڑے سے گر پڑا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف فرماتے ہیں’’ مَیں میدانِ جنگ میں کھڑا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں دو کم سِن بچّے کھڑے ہیں۔ اُن میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا’’ چچا جان! کیا آپؓ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا’’ ہاں! مگر تمہیں اُس سے کیا کام ہے؟‘‘ لڑکے نے کہا’’ مجھے پتا چلا ہے کہ وہ ہمارے پیارے نبیﷺ کو بُرا بھلا کہتا ہے۔

اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ مجھے مل گیا، تو میرا جسم اُس کے جسم سے اُس وقت تک جدا نہ ہو گا، جب تک کو ہم میں سے کسی ایک کی موت واقع نہ ہو جائے۔‘‘ دوسرے لڑکے نے بھی اِسی طرح کی بات کی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ابوجہل کو لوگوں کے درمیان دیکھا، تو مَیں نے بچّوں سےکہا’’ دیکھو! وہ سامنے ابوجہل ہے۔‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ دونوں تلواریں لہراتے اُس پر جھپٹ پڑے اور اُسے قتل کر دیا۔‘‘ مشرکین نے جب اپنے سالار کو زخمی ہو کر گرتے دیکھا، تو اُن پر دہشت طاری ہو گئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔

میدانِ جنگ کفّار سے خالی ہو چُکا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ کوئی جا کر ابوجہل کی خبر لائے۔‘‘ اس پر صحابہؓ اُس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی نظر لاشوں کے درمیان ابوجہل پر پڑی، جو قریب المرگ تھا۔اُنھوں نے اُس کی گردن پر پائوں رکھا اورگویا ہوئے’’ اے اللہ کے دشمن! آخر کار تجھے اللہ نے رسوا کیا۔‘‘ ابو جہل کا تکبّر کم نہ ہوا تھا، بولا’’ مجھے کیوں رسوا کیا، تم لوگوں نے جسے قتل کیا ہے، کیا کوئی اور اس سے بھی زیادہ معزّز ہے؟‘‘ پھر بولا’’ اچھا یہ تو بتائو! آج فتح کس کی ہوئی؟‘‘ حضرت عبداللہؓ نےجواب دیا’’اللہ اور اُس کے رسول، حضرت محمدﷺ کی۔‘‘ اس جواب نے ابو جہل کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اُس کا سر کاٹا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا’’ واقعی اُس اللہ کی قسم،جس کے سِوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا ’’اللہ اکبر، تمام حمد اللہ کے لیے، جس نے اپنا وعدہ سچ کر دِکھایا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔‘‘ پھر فرمایا’’ چلو! مجھے اس کی لاش دکھائو۔‘‘ آپﷺ نے لاش دیکھ کر فرمایا’’ یہ اس قوم کا فرعون تھا‘‘ (سنن ابی دائود)۔

شہدائے بدر اور کفّار کے مقتولین

غزوہ ٔبدر میں 14 صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، جن میں چھے مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:(1) حضرت حارث بن سراقہؓ(2) حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ(3)حضرت عبیدہ بن الحارثؓ(4) حضرت مہجعؓ (5)حضرت یزید بن الحارثؓ (6)حضرت عوف بن عفراءؓ(7)حضرت معوذ بن عفراءؓ (8)حضرت سعد بن خیثمہ انصاریؓ9))حضرت مبشر بن عبد المنذرؓ(10) حضرت رافع بن المعلیٰ ؓ(11)حضرت عاقل بن ابی البکیرؓ(12)حضرت عمیر بن حمامؓ (13)حضرت صفوان بن وہبؓ(14) حضرت عمیر بن عبد عمروؓ۔بدر کے میدان میں70 مشرکین مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بنائے گئے۔ نام وَر مقتولین میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابو الخبتری، حنظلہ بن ابی سفیان، حارث بن عامر بن نوفل، طعیمہ بن عدی، زمعہ بن الا سود، نوفل بن خویلد ، اُمیہ بن خلف، منبہ بن حجاج ، معبدبن وہب شامل تھے۔ نصربن حارث، جو اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے ایک تھا اور اُس دن مشرکین کا عَلم بردار تھا، وہ قیدیوں میں شامل تھا، لیکن اُس کے جرائم کی فہرست اتنی طویل تھی کہ آنحضرتﷺنے مدینہ روانگی کے دوران وادیٔ صفراء میں اُسے قتل کرنے کا حکم فرمایا۔

عقبہ بن معیط بھی قیدیوں میں شامل تھا، یہ وہ شخص تھا کہ جس نے ابوجہل کی ہدایت پر خانۂ کعبہ میں حضورﷺ کی گردنِ مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی تھی اور چادر سے گلا گھونٹ کر آپﷺ کو شہید کرنا چاہا تھا، اُسے بھی قتل کردیا گیا۔70گرفتار مشرکین میں سے چند نامور رؤسا کے نام یہ ہیں:عباس بن عبدالمطلب ، ابو العاص بن الربیع (رسول اللہؐ کی صاحب زادی، حضرت زینبؓ کے شوہر)، عقیل بن ابی طالب (حضرت علیؓ کے بھائی)، نوفل بن الحارث ، عدی بن الخیار، ابو عزیر بن عمیر، ولید بن الولید بن مغیرہ، عبداللہ بن ابی ، ابو عزہ عمر و بن عبداللہ شاعر، وہب بن عمیر، ابو وداعہ بن خبیرہ، سہیل بن عمرو ۔

مدینے میں فتح کی خوش خبری

رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے اختتام پر مالِ غنیمت ایک جگہ جمع کروایا، پھر شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھ کر اُن کی تدفین فرمائی(بدر کے میدان میں ایک احاطے کے اندر ان کی قبور موجود ہیں)۔ آپﷺ نے اس عظیم الشّان فتح کی نوید اہلِ مدینہ تک پہنچانے کے لیے حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کو بالائی اور حضرت زید بن حارثہؓ کو زیریں مدینے کی جانب روانہ کیا۔ اُدھر مدینے میں منافقین اور مشرکین یہ افواہ پھیلا چُکے تھے کہ مسلمانوں کو شکست ہو چُکی ہے اور نعوذ باللہ سرکارِ دو عالمﷺ شہید کر دیے گئے ہیں۔ زید بن حارثہؓ مسجدِ نبویؐ میں جا کر رُکے اور مسلمانوں کو فتح کی نوید سُنائی۔

یہ خبر پورے مدینہ منوّرہ میں پھیل گئی اور مسلمان مسجدِ نبویؐ میں جمع ہو گئے۔ پھر رسول اللہﷺ کو مبارک باد دینے کے لیے بدر کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ مدینے سے رخصت ہوتے وقت آپﷺ کی صاحب زادی، حضرت رقیّہؓ سخت علیل تھیں، آپؐ نے اُن کے شوہر، حضرت عثمانؓ کو مدینے ہی میں چھوڑ دیا تھا۔ حضرت اُسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ جب فتح کی خبر ملی، اُس وقت ہم حضرت رقیّہؓ کی تدفین کر کے مٹّی برابر کر رہے تھے۔‘‘ رسول اللہؐ نے چوبیس قریشی سرداروں کی لاشیں بدر کے ایک کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا۔جب عتبہ کی لاش لائی گئی، تو آنحضرتﷺ نے حضرت ابو حذیفہ ؓکے چہرے کی جانب دیکھا، جہاں غم و افسردگی نمایاں تھی۔ آپؐ نے فرمایا’’ کیا والد کی وجہ سے غم زدہ ہو؟‘‘ اُنھوں نے عرض کیا’’ واللہ، ایسا نہیں ہے یا رسول اللہﷺ۔مَیں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ میرا باپ نہایت دُور اندیش، ذی عقل اور صاحب الرائے شخص تھا۔

مجھے اُمید تھی کہ یہ خوبیاں ایک نہ ایک دن اُنہیں اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھنے میں معاون ہوں گی اور یہ کلمہ پڑھ لیں گے، لیکن آج جب مَیں اُن کا یہ بدترین انجام دیکھ رہا ہوں، تو مجھے افسوس ہورہا ہے۔‘‘ بدر کے میدان میں تین دن تک قیام کے بعد، آپؐ کی اونٹنی پر کجاوہ کَس دیا گیا اور آپؐ نے اپنے صحابہؓ کے ساتھ وہاں سے کُوچ فرمایا۔ روانہ ہونے سے پہلے آپؐ کنویں پر تشریف لے گئے اور مقتولینِ کفّار کو نام بنام مع اس کی ولدیت اس طرح پکارنے لگے’’اے فلاں بن فلاں! کیا تم کو یہ آسان نہ تھا کہ تم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے۔ ہم سے جس ثواب و اجر کا ہمارے مالک نے وعدہ کیا تھا، وہ ہم نے پالیا۔ پروردگار نے تم سے جس عذاب کا وعدہ کیا تھا، تم نے بھی وہ پالیا ہے یا نہیں؟‘‘ (صحیح بخاری)۔

قیدیوں سے حُسن ِسلوک

رسول اللہ ؐنے قیدی صحابہؓ میں تقسیم کر دیے اور ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا جائے۔ مسلمانوں کا اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کا یہ عالم تھا کہ جب کھانا کھانے بیٹھتے تو دسترخوان کا سب سے اچھا کھانا قیدی کو پیش کرتے۔مسجدِ نبویؐ میں جو قیدی رکھے گئے تھے، اُن کے ہاتھوں کی رسّی سخت تھی، جس کی بناء پر اُنہیں تکلیف ہوتی تھی۔ جب رسول اللہؐ کے کانوں میں اُن کے کراہنے کی آواز آئی، تو آپؐ نے فوری طور پر رسّی ڈھیلی کروا دی۔

مکّے کے جگر گوشے مسلمانوں کے رحم و کرم پر تھے اور جنگ کے اصولوں کے مطابق اُنھیں خود کے قتل کیے جانے کا یقین تھا، لیکن سرکارِ دو عالمؐ نے اپنے اصحابؓ سے مشورہ لینا ضروری سمجھا۔ سیّدنا صدیقِ اکبرؓ نے رائے دی ’’یہ سب ہمارے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں، اگر فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، تو اس رقم سے سامانِ حرب خریدا جاسکتا ہے اور ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ اسلام بھی قبول کرلیں۔‘‘ سیّدنا عُمر فاروقؓ نے رائے دی’’ سب کو قتل کردیا جائے، جو جس کا رشتے دار ہے، وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے قتل کرے تاکہ ہمارا اللہ جان لے کہ ہمارے دل میں کفّار کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں۔‘‘تاہم اکثریت نے حضرت صدیقِ اکبرؓ کی رائے سے اتفاق کیا، جس پر آپؐ نے قیدیوں کی فدیے کے عوض رہائی کا حکم فرمایا۔

مکّے کے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، جب کہ مدینے میں تعلیم کا رواج عام نہ تھا۔ سو، آپؐ نے فرمایا ’’جس قیدی کے پاس فدیے کی رقم نہ ہو، وہ مدینے کے دس بچّوں کو لکھنا پڑھنا سِکھا دے، تو یہی اس کا فدیہ ہوگا۔‘‘ حضورﷺ کے چچا، عباس بھی قیدیوں میں شامل تھے۔ صحابہؓ کی رائے تھی کہ اُنھیں بغیر فدیہ چھوڑ دیا جائے، لیکن حضورؐ نے اسے پسند نہیں فرمایا اور اُن کی مالی حیثیت کے مطابق اُن سے زیادہ فدیہ لیا گیا۔ رسول اللہؐ کی بڑی صاحب زادی، حضرت زینبؓ کے شوہر، ابوالعاص بھی قیدیوں میں شامل تھے۔ حضرت زینبؓ مکّے میں تھیں، اُنہیں فدیہ جمع کروانے کا پیغام ملا، تو اُس وقت گھر میں کچھ نہ تھا۔

عزیز رشتے دار بھی مدد کو تیار نہ تھے۔ اچانک اُنہیں اُس قیمتی ہار کا خیال آیا، جو اُن کی والدہ نے رخصتی کے وقت اُنہیں پہنایا تھا۔ چناں چہ اُس ہار کو شوہر کے فدیے کے عوض مدینہ بھجوادیا۔ ابوالعاص کے چھوٹے بھائی، عُمر بن ربیع یہ ہار لے کر مسجدِ نبویؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا’’ اے اللہ کے رسولؐ! میری بھابھی، زینبؓ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے زرِ فدیہ بھیجا ہے، قبول فرمایئے۔‘‘ حضور ؐ کی نظر ہار پر پڑی، تو بے اختیار اپنی جانثار زوجہ، حضرت خدیجہ ؓیاد آگئیں۔

آنحضرتؐ سے نکاح کے وقت وہ ہار اُن کے گلے میں تھا۔ ان یادوں نے آپؐ پر رِقت طاری کردی۔ صحابہؓ سے فرمایا’’ اگر مناسب سمجھو، تو بیٹی کو ماں کی یادگار واپس کردو۔‘‘ صحابہؓ نے اشک بار آنکھوں سے نہ صرف ہار واپس کیا، بلکہ ابو العاص کو بھی رہا کردیا۔ ابو العاص جب مکّہ جانے لگے، تو آنحضرتؐ نے فرمایا’’ اے ابو العاص! ہماری بیٹی کو ہمارے پاس بھیج دینا۔‘‘ ابو العاص نے مکّہ پہنچتے ہی حضرت زینبؓ اور اُن کے دونوں بچّوں، علی اور امامہ کو مدینہ روانہ کردیا۔ (جاری ہے)