دنیا
Time 15 دسمبر ، 2019

بھارتی شہریت کے متنازع قانون کیخلاف احتجاج، ہلاکتیں 6 ہوگئیں

طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ ہنگامہ آرائی اور بسوں کو آگ لگانے کے واقعات میں ملوث نہیں،فوٹو،انڈین میڈیا

شہریت سے متعلق متنازع ترمیمی قانون کے خلاف بھارت کی مختلف ریاستوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری  ہے جبکہ  دہلی میں مظاہرے پرتشدد شکل اختیار کرچکے ہیں۔

آسام سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں میں متنازع قانون کے خلاف ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، آسام میں انٹرنیٹ اب بھی بند ہے جب کہ مظاہروں کے دوران 85 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں آسام میں اب تک 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ متعدد زخمی ہیں۔

حالات پر قابو پانے کے لیے شہر میں فوج کو طلب کی گئی ہے جب کہ کرفیو نرمی کی گئی ہے۔

جامعہ ملیہ دہلی کے طلبہ پر پولیس کا تشدد

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی متنازع قانون کی مخالفت میں احتجاج جاری ہے اور جامعہ ملیہ دہلی کو بھارتی پولیس نے میدان جنگ بنالیا۔

نئی دہلی میں احتجاج کے دوران متعدد بسوں اور گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے جس کے بعد 7 میٹرو اسٹیشنز کو بند کردیا گیا ہے جب کہ بعض مقامات پر لوکل ٹرین سروس بی معطل کردی گئی۔

فوٹو:سوشل میڈیا

جامعہ ملیہ دہلی کےاحتجاجی طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ ہنگامہ آرائی اور بسوں کو آگ لگانے کے واقعات میں ملوث نہیں اور وہ پرامن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں۔

احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے طلبہ اور اساتذہ پر بدترین لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جس کے باعث 35 طلبہ زخمی ہوگئے جنہیں طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کردیا گیا۔

جامعہ ملیہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پولیس ان کی اجازت کے بغیر یونیورسٹی میں داخل ہوئی جہاں طلبہ اور اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا۔

فوٹو:سوشل میڈیا

دوسری جانب علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ بھی متنازع قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جب کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے 5 جنوری تک یونیورسٹی کو بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

6 ریاستوں کامتازع قانون کے نفاذ سے انکار

اُدھرپارلیمنٹ اور صدر سے منظوری ملنے کے بعد مغربی بنگال، پنجاب، کیرالہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس متنازع قانون پرعمل درآمد نہیں کریں گے۔

اقوام متحدہ کا اظہار تشویش

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق جیرمی لارنس نے بھی بھارت کے متنازع شہریت بل کے امتیازی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جیرمی لارنس کا کہنا ہے کہ بل میں مسلم مہاجرین کو تحفظ نہیں دیا گیا ہے، ترمیم سے بھارتی آئین میں موجود قانونی مساوات کو نقصان پہنچے گا۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف بھارت بھر میں مظاہروں کے پیش نظر جاپانی وزیراعظم شنزو ابے نے 15 دسمبر سے شیڈول دورہ بھارت ملتوی کر دیا جب کہ بنگلا دیش کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ بھی بھارت کا دورہ منسوخ کر چکے ہیں۔

امریکا نے بھی اپنے شہریوں کو بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں جانے کے حوالے سے ٹریول الرٹ جاری کر دیا ہے۔

متنازع شہریت قانون کیا ہے؟

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔

تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔

ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔

متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔

مزید خبریں :