17 دسمبر ، 2019
اسلام آباد کی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے حکم پر ان کے وکیل نے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ عُجلت میں سنایا گیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پرویزمشرف کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کے مؤکل پرویزمشرف کو فیئر ٹرائل نہیں ملا، کیس میں طریقہ کار کی بے شمار غلطیاں کی گئیں اور یہ فیصلہ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے بھی بُرا ہے۔
سلمان صفدر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ افسوس ہے 77 سال کے سابق صدر کا ٹرائل ہوا اور انہیں سنا بھی نہیں گیا۔ فیصلے میں تمام قوانین کو نظر انداز کیا گیا،سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شریک ملزم کیوں نہیں بنایا گیا؟ شریک ملزمان کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے تھا۔
پرویز مشرف کی صحت کے حوالے سے ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق صدر کی صحت بہت خراب ہے ان کو آج کے فیصلے کے بارے میں پتا نہیں تھا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی اور جسٹس سیٹھ وقار نے 4 سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔
فیصلے کے مطابق پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظر بند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے آئین شکنی کے جرائم ثابت ہوئے۔
3 رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔ نمائندہ جیو نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جج نظر محمد اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
اپیل صرف سپریم کورٹ میں ہو سکتی ہے'
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے 30 دن کا وقت ہے جب کہ اپیل دائر کرنے کے لیے پرویز مشرف کا موجود ہونا ضروری ہے۔
سنگین غداری کیس کا پس منظر
سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے 3 نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس نے 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی اور 19 جون، 2016 کو انہیں کو مفرور قرار دیا۔
2013 کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ یہ مقدمہ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے سنا۔
سنگین غداری کیس کی 6 سال میں 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور پرویز مشرف پر 5 فریم چارج کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کا چارج فریم کیا گیا۔
عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔ْ
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔
بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
اس کیس میں استغاثہ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد کو بھی شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔