18 دسمبر ، 2019
سیکولر جمہوریہ ووٹ کی طاقت سے ہندو بنیاد پرستی کا تشویشناک روپ دھارنے والے بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب ایک تاریخی حقیقت کے تابع ہے، یہ ہونا ہی تھا اور آگے بڑھتے ہوئے بدلتی تاریخ کی نئی حقیقتیں بھی آشکار ہو کر رہیں گی۔
مفروضے پر مبنی ہندوستان کی تاریخ سے پیدا ہونے والا ایک سوال بہت دلچسپ ہے جو برصغیر کی تاریخ کے طلبہ، اساتذہ، محققین و مورخین کے ذہن میں دوران تحریر و مطالعہ و مشاہدہ و تحقیق ابھرتا ہے کہ ، اگر 1857 میں دہلی میں فرنگی راج قائم نہ ہوتا تو برصغیر یا ہندوستان کی شکل کیا ہوتی؟ سوال اٹھا کر دیکھ لیجئے!
اس ایریاآف اسٹڈی سے گہرے منسلک سب ہی ایک جواب دیتے ہیں کہ ’’پھر مغلیہ سلطنت کے خاتمے پربرصغیر میں ری پبلک آف انڈیا ہوتی نہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بنتا بلکہ کثیرالثقافت بڑے انسانی معاشرے کی تشکیل اور اسکے رواں دواں عمل کا یہ بیش بہا خطہ چھوٹی بڑی کتنی ہی ریاستوں میں منقسم ہوتا۔‘‘
یعنی یہ کوئی تین چار پانچ ریاستوں پر آج کی طرح کا جنوبی ایشیا نہ ہوتا بلکہ لاطینی امریکہ، یورپ یا سلطنت عثمانیہ کی اپنی بڑھتی کمزوریوں، فرنگی سازشوں اور طاقت سے ہوئی بلقانائزیشن کے بعد (آج کی طرح) کا سا مشرق وسطیٰ ہوتا۔
میں نے ابلاغیات کے ساتھ ساتھ تاریخ کے طالب علم کے طورکتنے ہی ’’سائوتھ ایشیا اسکالرز‘‘ سے یہ سوال کیا تو کم و بیش انہوں نے یہ ہی جواب دیا کہ، فرنگی راج قائم نہ ہوتا تو برصغیر کئی چھوٹی بڑی ریاستوں کا خطہ ہوتا جو، نیشن اسٹیٹ کی طرز پر الگ الگ کلچر، زبان، مذہب یا مخصوص سیاسی نظریے پر تشکیل پاتیں۔
دہلی پر فرنگی راج قائم ہونے پر یہ حقیقت تو آشکار ہو ہی گئی تھی کہ ہندوستان میں ماضی کا گلورئس مسلم راج تو اب کبھی بحال نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہ جو شکل صورت بننے والی ہے،وہ فرنگی راج کے متعارف کرائے گئے نئے پولیٹکل آرڈر سے ہی نکلے گی۔
تبھی تو سرسید احمد خان کو مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تعلیمی و اقتصادی حقوق کی فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے اپنی کمال Cold Intellectual Calculations(انتہائی محتاط دانش) سے بذریعہ تعلیم مسلمانوں کے نئے سیاسی نظام میں جگہ بنانے کا اہتمام کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی نتیجہ خیز پروڈکٹ کے طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی۔
سید صاحب کے ’’جداگانہ انتخاب‘‘ کی آنے والے سالوں میں مطالبہ بن جانے والی تجویز نے جدید برصغیر میں ’’دو قومی نظریے‘‘ کی بنیاد رکھی، جو فرنگی راج ختم ہونے پر اکھنڈ بھارت بزور اکثریت کے مقابل تحفظ مسلمانان کا ایڈوانس اہتمام تھا۔
مستقبل قریب میں برصغیر نے تو چمن نہیں بننا تھا لیکن مسلمانان ہند کے لئے وژنری سرسید کی دیدہ وری نے پاکستان بننے جیسی ان ہونی کو ہونی کردیا۔ آج جبکہ تاریک ہندو ذہن کی تاریکی پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے تو اس کی لپیٹ میں پورا بھارت بنیاد پرست راج سے بنتا بھارت کا ایک نیا نقشہ دکھا رہا ہے۔
ذرا سوچئے! جدید بھارت میں اقتدار کی کل مدت میں سے 70 فیصد کی حامل کانگریس کا رہنما بطور پارلیمانی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی مکمل Troops-Locked اور کرفیو زدہ مقبوضہ کشمیر میں ایئر پورٹ پر پہنچ کربھی محبوس کشمیریوں کی سیاسی انداز میں خیر خبر لینے کے لئے سرینگر میں داخل نہ ہوسکا اور ایئر پورٹ سے ہی واپس کر دیا گیا اور تو اور وہ مین لینڈ میں بھی مطلب کا احتجاج نہ کر سکا اور مقبوضہ کشمیر ہی نہیں مین لینڈ کی بھی گھمبیر صورتحال پر اسے اپنا احتجاج کرنے کے لئے دبئی کے اسٹیڈیم میں جانا پڑا۔
مقبوضہ کشمیر کو اپنے تئیں ہڑپ کرنے کے خلاف آئین و قانونی اقدام کے بعد مودی کی ہندو بنیاد پرست حکومت نے جس طرح شمال مشرقی ریاستوں میں آباد دلت، عیسائیوں اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے اور ان میں سے مسلمانوں کو گھس بیٹھیا قرار دے کر واپس ہندو بنانے یا جلا وطن کرنے کی دھمکیوں کا سلسلہ شروع کیا اور اب جو پارلیمان میں شہریت بل منظور کرکے واضح طور پر مسلمانان بھارت کو اقلیت کے درجے سے بھی باہر کرکے تقریباً غیر ہندوستانی قرار دینے اور نیم غلام اور پھر کشمیریوں کی طرح غلام بنانے کا جو خطرناک سیاسی روڈ میپ بنایا ہے اس نے بھارت کی وہ تقسیم جس کا اندازہ بعض سیاسی دانشور 22ویں صدی میں ہونے کا لگاتے رہے،وہ شروع ہوتے ہی تیز تر بھی ہو رہا ہے۔
اس تشویشناک صورتحال کا اہم تر اور حساس ترین پہلو یہ ہے کہ سب کچھ کرنے والی ہندو جنونی حکومت ووٹ کی طاقت سے دوسری مرتبہ برسراقتدار آئی ہے، ہیوی مینڈیٹ سے، اوپر سے ملک گیر بھارتی میڈیا اس کا ایسا ہی ماؤتھ پیس بنا ہے، جیسے بحیثیت مجموعی بااثر امریکی میڈیا، عراق پر حملے سے پہلے ملینیز کے احتجاجی جلوسوں کو نظر انداز کرکے بش انتظامیہ کا بنا تھا، وہ بش جنہوں نے دوسری ٹرم ختم ہونے پر وائٹ ہائوس چھوڑنے سے پہلے اعتراف کیا تھا کہ عراق پر غلطی سے حملہ کیا۔
واضح رہے کہ گھڑے ہندومت کی طاقت، برہمنوں نے دنیا بھر کو الّو بنانے اور بھارتی سیاست پر اپنی مکارانہ برتری کے لئے دنیا کا سب سے اسمارٹ آئین اچھوت دانشور اور لااور پولیٹکل سائنس کے ڈبل پی ایچ ڈی باباجی بھیم رائو امبیڈکر سے بنوایا تھا، جو ہندو مت سے اتنے نالاں ہوئے کہ مرنے سے پہلے انہوں نے بدھ مت قبول کرلیا۔
ان کے بڑے پیروکار ممتاز دلت صحافی اور دانشور راج شیکر نے کوئی دس گیارہ سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے آڈٹیوریم کے خطاب میں بتایا کہ بابا جی قرآنی تعلیمات سے مکمل متاثر ہوگئے تھے، وہ مسلمان ہو کر مرنے کے خواہش مند تھے لیکن ڈبل مائینڈڈ رہے کیونکہ ان پر یہ بھی خوف سوار تھا کہ میں نے اسلام قبول کیا اور میری پیروی میں دلت بھی مسلمان ہوں گے تو دہلی کی سیاسی برہمن لابی کے لئے یہ ناقابل برداشت ہوگا اور میری قوم (دلت) پر یہ عرصہ حیات تنگ کر دیں گے۔
میں نے ان کے تحفظ کا جو اہتمام آئین میں کیا ہے، وہ برباد ہو جائے گا۔ لیکن مودی راج کے بعد دلت بھی مسلمانوں کی طرح شدید خطرے میں ہیں۔