19 دسمبر ، 2019
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جب کہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا اور پرویز مشرف کو تمام الزامات سے بری کیا۔
جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ یہاں پڑھیں
فیصلے کے مطابق جنرل (ر) پرویزمشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے اور ہر جرم پر انہیں ایک بار سزائے موت دی جائے۔
خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو بھی قانون کےکٹہرےمیں لا نے کا حکم دیا اور فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے جسٹس وقار سیٹھ نے پیرا 66 میں لکھا ہے کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہوجائیں تو لاش کو ڈی چوک پر لاکر تین دن تک لٹکایا جائے۔
فیصلے کے اہم نکات:
خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی اور کیس کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔
سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس نے 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی اور 19 جون، 2016 کو انہیں کو مفرور قرار دیا۔
2013 کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ یہ مقدمہ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے سنا۔
سنگین غداری کیس کی 6 سال میں 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور پرویز مشرف پر 5 فریم چارج کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کا چارج فریم کیا گیا۔
جانیے! پرویز مشرف کو کن5 الزامات پر سزائے موت سنائی گئی
عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔ْ
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔
بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی جس کے دوران استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام شامل کرنے کی درخواست عدالت نے مسترد کردی۔
استغاثہ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامدکو شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی تھی۔