19 دسمبر ، 2019
بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف دارالحکومت نئی دہلی اور ممبئی سمیت کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی مخلتف ریاستوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد متنازع شہریت کے بل پر آج بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں اور مظاہرین دھرنا دے رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے شہر پٹنا میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان نے ٹرینیں رکوا دیں جب کہ دارالحکومت نئی دہلی میں بھی 14 میٹرو اسٹیشن بند کر دیئے گئے۔
نئی دہلی کے علاقوں میں سرکاری احکامات پر موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔
اتر پردیش اور کرناٹکا میں بھی دفعہ 144 نافذ کر کے پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کر دیا گیا ہے اور متنازع قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔
نئی دہلی میں لال قلعے کے قریب دفعہ 144 کے نفاذ کے باجود مظاہرین کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور مودی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی جس پر پولیس نے متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
دوسری جانب اتر پردیش کے مختلف شہروں میں بھی مظاہروں میں شریک 62 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
متنازع شہریت قانون کیا ہے؟
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔