21 دسمبر ، 2019
مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب میں جدہ سے اپنی والدہ اور بھانجے کے ہمراہ خانہ کعبہ پہنچا تھا تو یکم محرم 1979ء کی صبح ہونے کو تھی۔ حرم شریف میں فجر کی نماز پڑھ کر دوسری صبح کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا۔ فجر کی نماز سے قبل ہم نے عمرہ ادا کیا تو والدہ شاید تھکن کی وجہ سے یا اللہ جانے کیا بات تھی اچانک اُٹھ کر باہر کی طرف چل دیں۔
بہت کوشش اور منت سماجت کے باوجود وہ رکنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں تب ہم سب کو مجبوراً واپس جدہ کی طرف روانہ ہونا پڑا، ابھی ہم جدہ سے باہر ہی تھے کہ اذانِ فجر شروع ہو گئی، ہم ابھی پوری طرح رکے بھی نہیں تھے کہ پولیس نے ہمیں رکنے نہیں دیا۔
بھانجے کے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایرانیوں نے حرم پر قبضہ کر لیا ہے، ہم جیسے تیسے کرکے جدہ میں گھر پہنچے تو ہر طرف پریشانی کا عالم تھا، بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی۔
پولیس کسی کو کہیں رکنے نہیں دے رہی تھی۔ ہم نےمناسب سمجھا کہ ائیر پورٹ سے اپنی سیٹیں کنفرم کر لی جائیں۔ جب ائیر پورٹ پہنچے تو وہاں ایمرجنسی نافذ ہو چکی تھی، معلوم ہوا کہ دو گھنٹے بعد فلائٹ ہے، اس کے بعد کوئی فلائٹ نہیں۔ میں نے فوراً سیٹ کنفرم کرا لی۔
جس مشکل سے اس دن جہاز جدہ سے نکلا وہ بھی الگ کہانی ہے۔ اس روز کعبہ شریف میں ہزاروں افراد قید ہوکر رہ گئے تھے۔ سعوی افواج اور اُن کی تمام ایجنسیاں حرم کا قبضہ چھڑانے کی ہزار کوششوں کے باوجود بہت دنوں تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔ سعودی عرب نے کئی ممالک سے اس سلسلے میں مدد چاہی سب ناکام رہے، کوئی قبضہ نہ چھڑا سکا۔
اس بڑی مصیبت کے وقت پاک فوج کے جوان جن کی قیادت کمانڈو مشرف کر رہے تھے، نے آہنی جرأت ہمت اور ولولے سے حرم شریف کو دہشت گردوں سے پاک کیا۔ بحیثیت مسلمان میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہی تاریخی کارنامہ بہت اہم اور اُن کی بخشش کے لئے کافی ہوگا۔ جنرل تو وہ بہت بعد میں بنے تھے، خانہ کعبہ والا کارنامہ ہی پرویز مشرف کا ایسا عظیم کارنامہ ہے کہ اس پر انہیں بقول شخصے سات خون معاف کیے جا سکتے ہیں۔
خانہ کعبہ کو آزاد کرانا کوئی معمولی کام نہ تھا، اس میں یقیناً انہیں اللہ کی تائید حاصل رہی ہوگی۔ اس کے علاوہ بھی اُن کی جرأت و ہمت کے بہت سے کارنامے افواجِ پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ میاں نواز شریف ایک انتہائی منتقم مزاج رکھنے والی شخصیت کےمالک ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ اُن میں اُونٹ کا کینہ ہے اور وہ اب تک فوج کے ساتھ اپنی ٹسل کو نہیں بھلا پائے ہیں۔ جنرل مشرف کے خلاف یہ مقدمہ جس کا فیصلہ آیا ہے، میاں نواز شریف کا ہی بنایا ہوا تھا۔
جس کا فیصلہ اب آیا ہے، میاں نواز شریف اور اُن کے حامی شادیانے بجا رہے ہیں ان کے خیال میں انہیں انصاف مل گیا ہے۔ جبکہ معتبر ترین اہل قانون کی رائے کے مطابق فیصلہ یکطرفہ اور درست نہیں ہے اور اس فیصلے سے انتقام کی بو آ رہی ہے اس میں انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
جنرل مشرف جو افواج پاکستان کے سپہ سالار بھی رہ چکے ہیں جہاں اُن کا ریکارڈ بہت عمدہ رہا ہے۔ رہی بات میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی تو اگر اہل فکر غور کریں اور اُن حالات کا جائزہ لیں جن میں جنرل مشرف اور اُن کے ساتھیوں کو ایسا قدم اُٹھانا پڑا تھا۔
ایسا انہوں نے ذاتی دفاع میں کیا تھا کیونکہ انہیں سری لنکا کا دورہ مختصر کرکے واپس آنے پر مجبور کیا گیا اور فضا سے زمین پر اترنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ تب ہی اُن کے فضا میں رہتے ہوئے اُن کے جاں نثار ساتھیوں نے میاں نواز شریف کو مسندِ اقتدار سے نیچے اُتار دیا تھا۔
اگر اس وقت بھی میاں صاحب عقل سے کام لے لیتے، ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح رہتے اور مزاحمت کرنے میں بھی اپنی حد میں رہتے تو شاید اُن کے ساتھ وہ نہ ہوتا جو ہوا۔ دراصل میاں نواز شریف خود اپنے انتقامی جذبوں کا شکار ہو گئے ہیں۔
جہاں تک جنرل مشرف کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ اُن کا حامی و ناصر ہے، اللہ نے ہر محاذ پر ان کے مقدر میں فتح و کامیابی لکھی ہے۔ جہاں تک کارگل کی بات ہے تو اگر یوں سمجھا جائے کہ کشمیر فتح کرنے کے بعد میاں صاحب نے خود اپنے ہاتھوں بھارت کو بخش دیا، اُن کا یہی عمل افواج پاکستان سے تنازع کا باعث بنا تھا۔ کارگل کے محاذ اور سیاچن کے محاذ پر خود جنرل مشرف نے کمانڈ کی تھی۔ جنرل مشرف بے جگر باہمت کمانڈو تھے۔
یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان آج بھی اُن کا احترام کرتی ہیں۔ آج بھی اُن کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اور اب تو حکمران وقت بھی اُن کے حمایت میں سامنے آگئے ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اگر آئین کو توڑنا غداری ہے تو ایسا تو ماضی میں کئی بار ہو چکا ہے کس کس کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ پھر کیا غداری صرف جنرل مشرف کے اکیلے کا جرم ہے، اُن کے ساتھ شریک دوسرے سارے بے قصور ہیں؟ جن لوگوں نے اُن کے ساتھ اقتدار کےمزے لوٹے، وہ اُن کے ہر فعل میں شریک رہے وہ بے قصور کیوں؟ کیا صرف اس لئے کہ موجودہ کابینہ کی کابینہ ہی نشانے پر آ سکتی ہے۔
پھانسی کا پھندا اس گردن میں فٹ کرو جس کی گردن موٹی ہو تاکہ پھندا فٹ بیٹھے۔ بہرحال جنرل پرویز مشرف کے کارنامے اُن کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں جنہیں یوں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔
میاں نواز شریف فیملی اپنے طرز عمل پر اپنے حالات جو اُنہیں درپیش ہیں، غور کریں، اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ اُن سے کہاں کب اور کیا غلطی ہوئی۔
جنرل مشرف اتنے قصوروار نہیں جتنے وہ خود ہیں، جنرل مشرف نے جو کیا، وہ ردعمل کے طور پر کیا، کسی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت نہیں کیا۔ کوئی کرپشن، کوئی بدعنوانی اُن کے دامن کو داغدار نہیں کر رہی، جس سے میاں صاحب نے خود کو رنگ لیا ہے۔